ارشد شریف کو سپرد خاک کردیا گیا
مقتول صحافی ارشد شریف کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی، جس کے بعد ایچ 11 قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
ارشدشریف کی نمازجنازہ کے لیے سیکیورٹی کےسخت انتظامات کیے گئے جبکہ اسلام آباد پولیس کی معاونت کیلئے سندھ پولیس اورایف سی تعینات کی گئی۔
مجموعی طورپر3 ہزار 792 سیکیورٹی اہلکارفیصل مسجد کے اطراف تعینات کیے گئے۔
کینیا میں پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے صحافی ارشد شریف کی میت اسلام آباد پہنچائے جانے کے بعد گزشتہ روز پمز اسپتال میں ان کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا۔
ميڈيکل ڈائريکٹر پمز کے مطابق ابتدائی رپورٹ 24 گھنٹوں میں مکمل کرلی جائے گی، تاہم فرانزک کیلئے کچھ دن درکار ہیں۔
جنرل سرجن ایس ایچ وقار کی سربراہی میں بورڈ میں ڈاکٹر ممتاز نیازی ڈاکٹر رحمان، ڈاکٹر فرخ کمال، ڈاکٹرارشاد حسین، ڈاکٹرنسرین بٹ اور ڈاکٹر الطاف اور ڈاکٹر عمرفاروق شامل تھے۔
میڈیکل ڈائریکٹر پمز پروفیسر ہاشم رضا نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم کی درخواست ارشد شریف کی اہلیہ اور رمنا پولیس نے کی۔ آئندہ 24 گھںٹوں میں ابتدائی میڈیکل رپورٹ کی تکمیل کو یقینی بنایا جائے گا۔
پمز ترجمان کے مطابق ڈاکٹرز نے ارشد شریف کی میت کا ایکسرے اورسی ٹی اسکین تجویزکیا جس پر پوسٹ مارٹم کے بعد میت کو ایکسرے ڈیپارٹمنٹ منتقل کیا گیا۔
پمز کے ترجمان کے مطابق پوسٹ مارٹم 6 کے بجائے 8 رکنی ٹیم نے کیا، ارشد شریف کے اہلخانہ کی درخواست پرای این ٹی سرجن اوراوایم ایف ایس سرجن کو بھی ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔
اوایم ایف ایس سرجن چہرے اور منہ کی سرجری میں مہارت رکھتے ہیں
تحقیقاتی کمیٹی تشکیل
ادھرحکومت نے ارشدشریف قتل کی تحقیقات کے لیے قائم اعلیٰ سطح کی کمیٹی کی ازسرنوتشکیل کردی ہے اور نیا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔کمیٹی میں ڈائریکٹرایف آئی اے اورڈپٹی ڈائریکٹرآئی بی شامل کیے گئے ہیں۔
کمیٹی معاملے کی تحقیقات کیلئےفوری طور پر کینیا جائے گی۔ کینیا میں پاکستانی ہائی کمیشن کمیٹی کی معاونت کرے گا۔
مزید پڑھیے:ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کیلئے قائم خصوصی ٹیم میں تبدیلی
ارشدشریف کی میت قطرایئر لائن کی پرواز کیو آر632 کے ذریعے منگل اور بدھ کی درمیانی شب اسلام آباد پہنچادی گئی۔ میت اہلخانہ نے وصول کی، ان کے علاوہ اسلام آباد ایئرپورٹ پرپی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری، کنول شوزب اور سماجی وصحافتی تنظیموں کے رہنما بھی موجود تھے۔
تدفین سے قبل ارشد شریف کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کا فیصلہ پہلے ہی کر لیا گیا تھا طے پایا کہ پمز(پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز)کے ڈاکٹروں پرمشتمل 6 رکنی ٹیم پوسٹ مارٹم کرے گی ۔
صحافی کی بیوہ جویریہ بھی اپنی ٹویٹ میں دوبارہ پوسٹ مارٹم کیے جانے کی تصدیق کرچکی ہیں۔
بدھ کو میت جناح اسپتال سے پمز منتقل کی گئی۔ ڈائریکٹر پمزاسپتال ڈاکٹرہاشم رضا نے صحافیوں کو بتایا کہ اہلخانہ کی جانب سے ارشد شریف کے پوسٹ مارٹم کی درخواست آئی ہے اور میڈیکل بورڈ ارشد شریف کا پوسٹ مارٹم کرے گا۔
ایئرپورٹ پر بد نظمی
اس سے قبل ارشد شریف کی بیوہ جویریہ نے میت پہنچنے کے موقع پربنائی جانے والی ویڈیو شیئرکرتے ہوئے کیپشن میں لکھا، ”میراارشدآگیا، قوم کا ہیروارشد شریف“۔
اسلام آباد ایئرپورٹ پررش کے باعث بدنظمی بھی دیکھنے میں آئی، حکام نے ارشد شریف کے حامیوں کو ویڈیوز بنانے سے روک دیا۔
ارشدشریف کی تدفین جمعرات کو ایچ الیون کے قبرستان میں کی جائے گی۔
دوسری جانب، صحافی ارشدشریف کی رہائشگاہ پر رات گئے سے سیاسی، سماجی و صحافتی تنظیموں کے رہنماوں اور عام شہریوں کا رش رہا، صحافی برادری کا کہنا تھا کہ ارشدشریف نے مجبورا ملک چھوڑا، قتل کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔
میت قطر ایئرویز کی پرواز کینیا سے لے کر روانہ ہوئی اور قواعد کے مطابق ٹرانزٹ میں 12 گھنٹے گزارنے کے بعد اسی پرواز نے اسلام آباد پہنچائی۔
مرحوم صحافی کی اہلیہ جویریہ صدیقی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ میرے شوہر ارشد تابوت میں گھر واپس آرہے ہیں۔ کینیائی حکام ہمارے سامنے جوابدہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ارشد شریف قتل: اس مرحلے پرجوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا فائدہ نہیں ، اسلام آباد ہائیکورٹ
قبل ازیں وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اپنے بیان میں کہاتھا کہ مرحوم صحافی ارشد شریف کی میت پاکستان روانہ کردی گئی ہے، وزیراعظم شہباز شریف کی کینیا کے صدر سے گفتگو کے نتیجے میں قانونی امور کو تیزی سے مکمل کیا گیا۔ کینیا میں موجود پاکستان کی سفیر سیدہ ثقلین نے کئی گھنٹے تک مسلسل تمام مراحل کی نگرانی کی ہے۔
تصویر: روئٹرز
مریم اورنگزیب نے مزید کہاکہ ارشد شریف کی میت کو ایک بج کر 25 منٹ پر نیروبی سے اسلام آباد روانہ کیا گیا، نیروبی میں پاکستان کی سفیر ارشد شریف کی میت کو ہوائی اڈے پر الوداع کرنے تک موجود رہیں۔
تصویر: روئٹرز
مزید پڑھیے:امریکا کا ارشد شریف کے قتل کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ
کینیا پولیس کا اپنے افسر کے ہاتھوں گولی چلنے کا اعتراف
نیشنل پولیس سروس کینیا نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے ایک افسر نے پاکستانی صحافی ارشد شریف کو گولی مار کر ہلاک کیا۔
کینیا کی پولیس نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا کہ، ”این پی ایس کو گزشتہ رات پیش آنے والے ایک واقعے کے حوالے سے اعلان کرتے ہوئے افسوس ہے ، جہاں ارشد محمد شریف نامی ایک غیر ملکی شہری ایک پولیس افسر کے ہاتھوں جاں بحق ہوا۔“
کینیا کی پولیس نے مزید کہا کہ یہ واقعہ گاڑی چوری کی خبر کے تناظر میں پیش آیا۔ متوفی کی گاڑی نے سڑک پر لگی رکاوٹ کو عبور کیا تب ہی ان پر گولی چلائی گئی۔
ارشد شریف کا قتل، تحقیقات کیلئے خصوصی ٹیم تشکیل
صحافی ارشد شریف کے قتل سے متعلق حکومت نے تحقیقات کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دے دی۔
تحقیقاتی ٹیم میں اطہروحید ڈائریکٹر ایف آئی اے، عمر شاہد حمید ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آئی بی اور لیفٹینٹ کرنل سعد احمد آئی ایس آئی شامل ہیں۔
وفاقی حکومت نے ٹیم کو فوری طور پر کینیا روانگی کی ہدایت جاری کردی ہے جبکہ کینیا میں پاکستانی ہائی کمیشن ٹیم کی معاونت کرے گا۔
کینیائی صحافیوں کے سوالات
کینیا میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے بارے میں وہاں کے ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں کینیا کی پولیس نے شناخت میں غلطی پر ہلاک کیا۔ مقامی میڈیا نے ارشد شریف کے قتل سے متعلق مزید تفصیلات شائع کی ہیں۔
کینیا سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ارشد شریف کو نیروبی سے کچھ فاصلے پر واقع علاقے مگاڈی میں پولیس نے ایک ہائی وے پر گولی ماری۔
ابتدا میں کینیا کے ایک نسبتاً معروف اخبار دی اسٹار نے نیروبی پولیس کے حوالے سے بتایا کہ نیروبی مگاڈی ہائی وے پر چیکنگ جاری تھی کہ ارشد شریف کی گاڑی کے ڈرائیور نے مبینہ طور ناکہ توڑا، جس پر پولیس اہلکار نے گولی چلا دی جو ارشد شریف کے سر میں لگی۔
تاہم بعد ازاں دیگر اخبارات اور چند مقامی صحافیوں نے مزید تفصیل شائع کی۔ ابتدائی اطلاعات اور بعد میں سامنے آنے والی معلومات میں تضادات بھی سامنے آئے ہیں۔
ابتدائی خبروں میں کہا گیا کہ ارشد شریف کی گاڑی پر تعاقب کے بعد فائرنگ کی گئی اور ان کی گاڑی الٹ گئی تھی جب کہ بعد کی اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کے ساتھی کو ان کی موت کا علم منزل پر پہنچ کر ہوا۔
دی اسٹار کی رپورٹ میں پولیس تعاقب کا ذکر
پولیس کی جانب سے کینیا کے اخبار’دی اسٹار’ کو بتائی جانے والی تفصیلات کے مطابق ارشد شریف دارالحکومت نیروبی سے 113 کلو میٹرکے فاصلے پر واقع مگاڈی جا رہے تھے جب انہیں نیروبی کے نواقع میں ہی ایک پولیس ناکے پرانہیں روکا گیا۔
پولیس نے یہ ناکہ اس وقت لگایا تھا جب نیروبی کے علاقے پنگانی میں ایک شخص نے رپورٹ درج کرائی کہ اس کی گاڑی چوری کر لی گئی ہے جس میں اس کا بیٹا بھی موجود ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس جس کار کو تلاش کر رہی تھی وہ اس گاڑی سے ملتی جلتی تھی جس میں ارشد شریف سفرکر رہے تھے۔
دی اسٹار کینیا نے لکھا کہ ناکہ لگائے جانے کے چند ہی منٹ بعد ہائی وے پرارشد شریف کی گاڑی دکھائی دی۔ پولیس نے گاڑی کو روکا اور مسافروں کو اپنی شناخت ظاہر کرنے کی ہدایت کی۔ لیکن گاڑی میں موجود افراد روکنے اور شناخت ظاہر کرنے میں ناکام ہوگئے۔ جس کے بعد ان کی گاڑی کے مختصر تعاقب شروع ہوا اور پولیس نے گولی چلا دی۔
فائرنگ سے گاڑی بھی الٹ گئی اور ڈرائیورزخمی ہوگیا جسے اسپتال پہنچایا گیا۔ اس نےبعد ازاں پولیس کو اپنے بیان میں بتایا کہ وہ اوراس کا مقتول ساتھی ڈویلپر تھے اور ایک جگہ دیکھنے کے لیے مگاڈی جا رہے تھے۔
مزید پڑھیں:ارشد شریف کا مبینہ قتل، اسلام آباد ہائیکورٹ کا وزارت داخلہ وخارجہ کو نوٹس
پولیس ہیڈ کوارٹرنے کینیا کے اخبارکو بتایا کہ کیس انڈیپنڈنٹ پولیسنگ اوورسائٹ اتھارٹی کودے دیا گیاہے، اس حوالے سے جامع بیان بعد میں جاری کیا جائے گا۔
مقامی صحافیوں کے مختلف دعوے
دوسری جانب کینیا کے ایک صحافی برائن ابویا نے اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ ارشد شریف کی لاش کینیا کے چرومو مردہ خانے سے ملی ہے جو پولیس کے بتائے گئے فائرنگ کے مقام سے 78 کلو میٹردورواقع ہے۔ ارشد شریف کے جسم پر گولیوں کے2 زخم ہیں۔
برائن نے واقعات کی ایک الگ ہی ترتیب ٹوئٹر پر شائع کی۔ کم و بیش اسی قسم کی تفصیل کینیا کی غیرمعروف ویب سائیٹس پر شائع ہوئی ہے۔
کینیائی صحافیوں نے پولیس کے موقف پر سوال اٹھا دیے
صحافی ارشد شریف کے قتل پر کینیا کے صحافیوں نے بھی پولیس کے موقف پرسوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس کے موقف میں بہت زیادہ جھول ہیں،
کینیا کے میڈیا گروپ دی اسٹار کے چیف کرائم رپورٹر سائرس اومباتی نے بتایا کہ واقعہ کے بعد میں نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا مگر پولیس نے وہاں جانے کی اجازت نہیں دی۔ پولیس نے وہ علاقہ اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اور رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر گاڑی کو روکنا تھا تو گاڑی کے ٹائروں پر فائرنگ کی جا سکتی تھی، براہ راست ارشد شریف پر فائرنگ کی وجہ سمجھ سےباہرہے۔
نیروبی میں برطانوی نشریاتی ادارے کی نامہ نگار بیورلی اوچینگ کا کہنا ہے کہ پولیس میں نیم فوجی ڈپارٹمنٹ جی ایس یو کے افسران اعلیٰ تربیت یافتہ ہیں اور ان پر ماضی میں تشدد کے الزامات لگ چکے ہیں۔ انھیں اکثر پولیس کے ساتھ تعینات کیا جاتا ہے اور یہ شہریوں پر تشدد کی وجہ سے بدنام ہیں، ارشد شریف کیس میں بھی یہی تحقیقات جاری ہیں کہ آیا وہ ارشد شریف کے قتل کے ذمہ دار ہیں؟۔
کینیا کے مقامی ذرائع ابلاغ میں ذیل کی تفصیل رپورٹ ہوئی ہے جس کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکتی:
1۔ مقامی وقت کے مطابق اتوار کو رات 10 بجے (پاکستانی وقت کے مطابق 12 بجے) مگاڈی پولیس اسٹین کو اطلاع ملی کہ کینیا فارم (Kuenia farm) کے قریب فائرنگ کا ایک واقعہ ہوا ہے جس میں ایک پچاس برس کے پاکستانی شہری ارشد شریف مارے گئے ہیں۔
2 ۔ ارشد شریف گاڑی نمبرKDG 200M میں اپنے ساتھی خرم احمد کے ساتھ مگاڈی سے نیروبی واپس جا رہے تھے۔ گاڑی مقامی ڈرائیور چلا رہا تھا۔ (یاد رہے کہ ابتدائی اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ ارشد شریف نیروبی سے مگاڈی جا رہے تھے۔)
3۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کی موت پر منتج ہونے والے واقعات کا آغاز کچھ وقت پہلے نیروبی کے علاقے پنگانی میں ڈگلس نامی شہری کی جانب سے درج مقدمے سے ہوا جس نے بتایا کہ اس کی گاڑی اس کے بیٹے سمیت چوری کر لی گئی ہے۔ ڈگلس کا بیٹا بعد ازاں ایک چرچ سے مل گیا۔
4۔ جس وقت ارشد شریف مارے گئے وہ مگاڈی کے علاقے میں ایک خستہ حال سڑک پر سفر کر رہے تھے۔
5۔ ارشد شریف اور ان ساتھی ابھی کسریان مگاڈی (Kiserian-Magadi) روڈ پر نہیں پہنچے تھے جب انہیں سڑک چھوٹے پتھروں سے بند ملی۔
6۔ یہاں پرانہوں نے اپنی گاڑی پر فائرنگ ہوتے سنی لیکن وہ رکے بغیر آگے بڑھتے چلے گئے۔ یہ فائرنگ کینیا پولیس کی جنرل سروس یونٹ کے ایک ٹریننگ سینٹر کے قریب ہوئی۔ دارالحکومت نیروبی سے یہ مقام 87 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
7۔ فائرنگ کے بعد خرم نے اپنے دوست نقار احمد کو فون کیا جو پاکستانی شہری ہے اور اسے علاقے میں رہتا ہے۔ نقار نے اسے اپنے گھر تک آنے کو کہا۔
8 - جب خرم (نقار احمد کے گھر کے) مرکزی دروازے پر پہنچا تو اس نے ارشد شریف کو مردہ پایا۔ ارشد شریف کے سر میں زخم تھا۔ گولی پیچھے سے ان کے سر میں داخل ہوئی اور سامنے سے نکل گئی۔ نقار احمد ٹنگا نامی قصبے میں رہتا ہے جو مگاڈی اور نیروبی کے درمیان پڑتا ہے اور نیروبی سے 25کلومیٹر پہلے آتا ہے۔
9 ۔ گاڑی کے معائنے پر معلوم ہوا کہ اسے مجموعی طور پر 9 گولیاں لگی ہیں۔ اس کی ونڈ اسکرین پر داہنی جانب ایک سوراخ تھا۔ ارشد شریف اسی جانب بیٹھے تھے۔ دو سوراخ پیچھے بائیں جانب تھے۔ ایک گولی کا سوراخ پیچھے داہنی دروازے میں تھا۔ چار سوراخ سیدھی جانب بونٹ پر تھے اور ایک سامنے دائیں ڈائر میں تھا جو بیٹھ گیا تھا۔
10 - پولیس رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستانی شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ ڈیولپر ہیں اور نیروبی میں رہتے ہیں۔
11 - لاش نیروبی کے چرومو مردہ خانے میں ہے جہاں پوسٹ مارٹم ہوگا۔
تین گھنٹے بعد پاکستان میں اطلاع
مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ارشد شریف کا قتل پاکستانی وقت کے مطابق رات 12 بجے سے پہلے ہوا۔ پاکستان میں ان کے قریبی لوگوں کو تین بجے کے قریب اطلاع ملی۔
صحافی کاشف عباسی نے ساڑھے تین بجے کے قریب ٹوئٹر پر اپنے فالورز کو بتایا۔
ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ نے علی الصبح ٹویٹ میں لکھا کہ، ”میں نے اپنے دوست، شوہر اور پسندیدہ ترین صحافی ارشدشریف کوکھو دیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں کینیا میں گولی ماری گئی۔ ہماری پرائیویسی کا احترام کریں اور بریکنگ کے نام پر ہماری گھریلو تصاویر، ذاتی تفصیل یا ان کی اسپتال سے آخری تصاویر شیئر نہ کریں۔ ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں“۔
ارشد شریف کون تھے
ارشد شریف کی عمر 49 برس تھی اور ان کا تعلق ایک فوجی خاندان سے تھا۔ ارشد شریف کے والد محمد شریف پاکستان نیوی میں کمانڈر تھے۔
ارشد 1973 میں کراچی میں پیدا ہوئے اور 1993 میں صحافتی کیرئیر شروع کیا۔ وہ پہلے انگریزی اخبارات اور پھر مختلف ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے۔ تاہم ان کی ایک اہم پہچان اے آر وائی نیوز کا پروگرام پاور پلے بنا۔ 2012 میں انہوں نے آگاہی ایوارڈ جیتا۔
صدرعارف علوی نے 2019 میں ارشد شریف کو پرائڈ آف پرفارمنس اعزاز سے نوازا۔
پاکستان سے روانگی
ارشد شریف حالیہ چند ماہ میں خبروں میں اس وقت آئے جب 13اگست کو پولیس نے ارشد شریف سمیت اے آر وائی کے صحافیوں اور سی ای او کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ یہ مقدمہ پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی جانب سے اس ٹی وی چینل پر دیئے گئے ایک بیان کے بعد درج ہوا تھا اور گل پر مسلح افواج کے اراکین کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
مقدمے کے اندراج کے بعد ارشد شریف نے پاکستان چھوڑ دیا اگرچہ دیگر صحافی ملک میں ہی رہے۔اس کے کچھ ہی دن بعد ارشد شریف کے بیانات کے ردعمل میں اے آر وائی نے اعلان کیا کہ چینل ان کے ساتھ اپنی 8 سالہ رفاقت ختم کر رہا ہے۔
اگست میں پاکستان چھوڑنے کے بعد ارشد شریف لندن میں دیکھے گئے۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ وہ کینیا کے شہر نیروبی کیوں گئے تھے۔
Comments are closed on this story.