پانچ سالہ بچی کو کاروکاری کے الزام میں قتل کرنے کی کوشش
جيکب آباد کی تحصیل ٹھل میں پانچ سالہ بچی پر کاروکاری کا الزام لگا دیا گیا، فاطمہ کے ماموں نے دیگر ملزمان کے ساتھ مل کر اسے قتل کرنے کی کوشش کی تو میڈیا پر خبر نشر ہونے پر سيشن جج نے نوٹس لیا۔
قصبہ مہراللہ بنگلانی میں فاطمہ پر اس کے ماموں ملزم عارب بنگلانی نے الزام لگایا اور پھر اسے جان سے مارنے کی کوشش کی، بچی کی ماں نے بھی بھائی کا ساتھ دیا۔ تاہم باپ کی مزاحمت پر ملزمان بچی کو قتل کرنے میں ناکام رہے۔
میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد سیشن جج عبدالغفور کلھوڑو نے نوٹس لیا تو پولیس نے عارب بنگلانی سمیت پانچ ملزمان پر مقدمہ درج کرلیا۔
بچی کے باپ ہزار خان نے خوف کی وجہ سے کسی کیخلاف مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا تو مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کرلیا گیا۔
پولیس نے ننھی فاطمہ کو کنزیومر کورٹ میں پیش کیا جس کے بعد عدالت نے بیس لاکھ کے ضمانتی مچلکوں کے عوض بچی کو والد کے حوالے کرکے پولیس کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔
تاہم ذرائع کے مطابق علاقہ کی روایت کے باعث بچی کی زندگی شدید خطرے میں ہے۔
کاروکاری کیا ہے؟
بدچلنی یا معاشقے کے شبہے میں عورت اور اس کے آشنا کا قتل کاروکاری کہلاتا ہے۔ جسے عرف عام میں غیرت کے نام کیا گیا قتل کہا جاتا ہے، پاکستان میں ایسے قتل کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔
یہ رواج پاکستان میں بلوچستان اور سندھ میں زیادہ عام ہے۔ جہاں کے رسم و رواج کے مطابق خاندان کی مشتبہ طور پر گمراہ عورت اور اس کے شریک جرم کا قتل جائز ہے اور قاتل سزا سے صاف بچ جاتا ہے۔
سندھ میں ایسے قتل کو ”کاروکاری“ کہتے ہیں، پنجاب میں یہ ”کالا کالی“ کہلاتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں ”طور طورہ“ جبکہ بلوچستان میں اسے ”سیاہ کاری“ کہا جاتا ہے۔
اس رسم کا غلط استعمال بھی بہت عام ہے۔ عام قتل کے برعکس مقتول خاتون کا خاندان ایسے کیس میں پولیس سے تعاون نہیں کرتا نہ قاتل کو پکڑوانے میں دلچسپی لیتا ہے۔
ہم ایسا بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایک لڑکی اپنے خاندان کی رضامندی کے بغیر کسی لڑکے سے شادی کرتی ہے اور لڑکی کے خاندان والے اس بات کو اپنی عزت کی کمی کا باعث سمجھتے تو وہ لڑکی کو اپنی عزت بچانے کی خاطر قتل کر دیتے ہیں اور اس قتل پر ان کو کسی قسم کا افسوس نہیں ہوتا۔
اس کی مثال قندیل بلوچ کا قتل بھی ہے جس کا چرچا دنیا بھر میں ہوا تھا۔
Comments are closed on this story.