Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

توشہ خاشہ معاملہ کیسے شروع ہوا اور کہاں جائے گا

انفارمیشن کمیشن میں معمولی درخواست سے لیکر اہم ترین مقدمے تک
اپ ڈیٹ 21 اکتوبر 2022 11:37am
تصویر: اے ایف پی
تصویر: اے ایف پی

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان پر یوں تو الزام توشہ خانہ سے تحائف گھر جانے کا الزام ہے لیکن جس معاملے پر انہیں تاحیات نااہلی ہو سکتی ہے وہ صرف تحائف کا نہیں بلکہ غلط بیانی کا ہے۔

انہیں اگر نااہلی کی سزا ہوئی تو یہ غلط بیانی پر ہوگی نہ کہ تحفے گھر لے جانے پر۔

یہ معاملہ انفارمیشن کمیشن میں دی گئی ایک معمولی درخواست سے شروع ہوا تھا اور اب ملک کے اہم ترین مقدمات میں سے ایک بن چکا ہے اور ملک کے سیاسی مستقبل کا تعین کرسکتا ہے۔

عمران خان اگست 2018 میں اقتدار میں آئے اور اس کے فوراً بعد سے انہوں نے توشہ خانہ سے تحائف اپنے پاس رکھنا شروع کیے۔2018 میں ملنے والا پہلا بڑا تحفہ ایک قیمتی گراف (Graff)گھڑی اور چند دیگر اشیا پر مشتمل تھا۔ یہ اشیا ایک بااثر عرب ملک کے حکمران نے دی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ انہیں مارکیٹ میں بیچے جانے پر مذکورہ حکمران ناراض بھی ہوئے۔ بعد میں مذکورہ حکمران نے یہ گھڑی اور دیگر چیزیں مارکیٹ سے خرید کر اپنے پاس رکھ لیں۔

شہری کی درخواست

پی ٹی آئی سربراہ کے حوالے سے توشہ خانہ کا ذکر پہلی بار 2021 میں اٹھا جب عمران خان کا اقتدار بھرپور مضبوط تھا۔ سال 2020 کے آخر میں پاکستان انفارمیشن کمیشن کے سامنے ایک درخواست آئی تھی جس میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو ملنے تحائف کی تفصیل مانگی گئی تھیں۔

رانا ابرار خالد نامی شہری کی درخواست پر انفارمیشن کمیشن نے کابینہ ڈویژن کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ ان تحائف کی تفصیل جاری کردے جو عمران خان گھر لے جاچکے ہیں۔

اس وقت کی حکومت یہ تفصیل دینے کو تیار نہیں تھی۔ کمیشن کے حکم کے خلاف کابینہ ڈویژن نے ستمبر 2021 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے درخواست دائر کی۔ لیکن معاملہ الٹا بڑھتا چلا گیا۔

اگرچہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں یہ معاملہ سات ماہ تک التوا کا شکار رہا لیکن اپریل 2022 میں عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے کے کچھ ہی عرصے بعد یہ قضیہ دوبارہ چھڑ گیا۔ 20 اپریل کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیل سامنے لانے کا حکم دے دیا۔

اپریل میں ہی وزیراعظم شہباز شریف نے الزام عائد کیا کہ عمران خان نے 14 کروڑ روپے مالیت کے تحائف توشہ خانہ سے لے کر فروخت کر دیے ہیں۔ یہ تحائف پہلے 30 اور پھر 50 فیصد ادائیگی پر خریدے گئے تھے۔

الیکشن کمیشن میں ریفرنس

جب یہ واضح ہو گیا کہ عمران خان نے نہ صرف توشہ خانہ سے تحائف وصول کیے بلکہ انہیں بیچ کر آمدن بھی حاصل کی تو ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی محسن نوازرانجھا سمیت پانچ اراکین اسمبلی نے الیکشن کمیشن آف پاکسان میں عمران خان کی نااہلی کے لیے ریفرنس دائر کردیا۔

اس ریفرنس کی بنیاد یہ ہے کہ عمران خان نے تحائف کی فروخت سے ہونے والی آمدن کو اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا۔ قانون کے تحت اراکین پارلیمنٹ اپنی تمام آمدن اور جائیداد ہر سال گوشواروں میں ظاہر کرنے کے پابند ہوتے ہیں اور گوشواروں میں کچھ چھپانے والا رکن پارلیمنٹ بد دیانت قرار پاتا ہے۔ آرٹیکل 62ون ایف کے تحت بد دیانتی پر رکن پارلیمنٹ تا حیات نااہل ہو جاتا ہے۔

مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت اس بات پر تاحیات نااہل قرار دیا تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے متوقع طور پر ملنے والی تنخواہ گوشواروں میں ظاہر نہیں کی تھی۔

عمران خان کے خلاف ریفرنس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں کیس چلا تو سابق وزیراعظم نے اپنے ایک تحریری جواب میں اعتراف کیا کہ انہوں نے 2 کروڑ 15 لاکھ روپے سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے بعد توشہ خانہ سے تحائف لیے اور یہ تحائف 5 کروڑ 80 لاکھ روپے میں فروخت کیے۔

الیکشن کمیشن میں سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے تکنیکتی اعتراضات اٹھائے۔ ایک اعتراض یہ تھا کہ اسپیکر کا کہنا ہے کہ نااہلی کا ریفرنس 63 دو کے تحت بننا چاہیے جب کہ اس معاملے میں وہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی مانگ رہے ہیں حالانکہ آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق صرف عدالت کر سکتی ہے کمیشن نہیں۔

الیکشن کمیشن نے 19 ستمبر کو سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

آگے کیا ہوگا

الیکشن کمیشن آف پاکستان زیادہ سے زیادہ عمران خان کو تاحیات نااہلی کی سزا سنا سکتا ہے۔ تاہم کمیشن کے فیصلے کے خلاف عدالتوں میں اپیل کی جا سکتی ہے۔

زیادہ امکان یہی ہے کہ پی ٹی آئی براہ راست سپریم کورٹ جانے کے بجائے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کرے گی۔ تاکہ اگر اسلام آباد ہائیکورٹ سے بھی اس کے حق میں فیصلہ نہ آیا تو وہ سپریم کورٹ جا سکے۔

نواز شریف کے معاملے میں نااہلی کا فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا تھا لہذا مسلم لیگ(ن) کے پاس نظرثانی اپیل کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ نظرثانی اپیل میں عدالت عام طور پر فیصلہ تبدیل نہیں کرتی۔

توشہ خانہ کیس سماعت کے لیے مقرر ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر عمران خان نااہل ہوئےاور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تو ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کی نااہلیت بھی دوبارہ عدالت میں زیربحث آئے اور مسلم لیگ(ن) کے سربراہ کو بھی کوئی ریلیف مل سکے۔

pti

imran khan

Election commission of Pakistan

tosha khana case

politics Oct 21