ایم کیو ایم انتخابات سے بھاگ رہی ہے؟
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار الحسن کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اگر بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومت کی مشاورت سے کوئی فیصلہ کیا ہے تو اس کو ایم کیو ایم پر تھوپنا بغض ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں میزبان عاصمہ شیرازی کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ہماری دو پٹیشنز الیکشن کمیشن نے مسترد اور ایک سپریم کورٹ نے رول بیک کی۔ ہم انتخابات ملتوی کروانے نہیں بلکہ حلقہ بندیاں برابر اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کیلئے گئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے ہماری دونوں باتیں ہی نہیں سنیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر چیز کا الزام ایم کیو ایمم پر دھر دینا جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی پرانی عادت ہے کیونکہ دونوں جماعتیں ایک ہی طرح کی طنزیہ سیاست کرتی ہیں۔
ایم کیو ایم الیکشن اور شرمندگی کیلئے تیار نہیں؟
اس سوال کے جواب میں خواجہ اظہار کا کہنا تھا کہ ہم دو ضمنی انتخابات ہارے، ہمیں بائیکاٹ ہی کرنا ہوتا تو ہم قومی اسمبلی کے الیکشن کا کرتے۔ انتخابات ملتوی کرنا الیکشن کمیشن کا خود مختار فیصلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک بات ہے الیکشن ہارنے کی تو ہم 1992 کے بعد بھی الیکشن ہارے، 1997 میں بھی کئی سیٹیں گنوائیں، یہاں تک کہ 2002 کے مشرف میں ہم آٹھ سیٹیں ہارے۔
انہوں نے کہا کہ لیکن یہ خیال رہے کہ ایم کیو ایم نہیں ہاری ہے، کراچی ہار رہا ہے۔ اگر 5 لاکھ 80 ہزار ووٹرز میں سے عمران خان کو صرف 50 ہزار ووٹ ملتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ 5 لاکھ 20 ہزار ووٹرز احتجاجاً گھر بیٹھے رہے۔ لوگ بیزار ہوگئے ہیں کہ کتنی بار ووٹ ڈالیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگوں کو پیپلز پارٹی سے کوئی توقع نہیں، جماعت اسلامی نے وہ مطالبے نہیں کرنے جو ایم کیو ایم نے کیے، پی ٹی آئی کے 126 ایم پی اے، ایم این ایز کراچی سے منتخب ہوئے انہوں نے شہر کیلئے کیا کیا؟
ایم کیو ایم اپنے ووٹرز کو باہر نکالنے میں ناکام رہی؟
خواجہ اظہار الحسن کا کہنا تھا کہ ہم ناکام نہیں ہوئے، ہمارا ووٹر ہم سے جڑا ہوا ہے، جس طرح ہم اس کے مسائل بیان کرتے ہیں اور اس کیلئے لڑتے ہیں کیا اور کوئی جماعت لڑ رہی ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ جعلی ڈومیسائل، کوٹہ سسٹم، حلقہ بندیوں کے خلاف صرف ایم کیو ایم لڑ رہی ہے، اور کوئی ہے جو اس حوالے سے لڑ رہا ہے؟
ہمارا ووٹر یقیناً ہم سے ناراض ہے، لیکن اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ کراچی کی ذمہ داری کوئی نہیں لیتا۔
تنازعات کے باوجود کامران ٹیسوری کا نام بطور گورنر کیوں؟
خواجہ اظہار نے کہا کہ ہم نام نہ بھی دیتے تو نیا گورنر آجاتا، پانچ ناموں کو ناموں کو پانچ ماہ رکھ کر بیٹھے رہے، پھر جب دو نام بھیجے تو ایک منظور ہوگیا، ممکن ہے کہ یہ آئینی پوسٹ ہماری مشاورت کے بغیر پُر ہوجاتی۔
ان کا کہنا تھا کہ کامران ٹیسوری نے کچھ غلط فہمیاں دور کیں اور کچھ وعدے کئے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ تمام مطالبات پورے کروائیں گے۔
Comments are closed on this story.