سانحہ کار ساز کی 15ویں برسی آج منائی جا رہی ہے
سانحہ کارساز کی 15ویں برسی آج منائی جا رہی ہے، 2007 کو پاکستان کی تاریخ کا ہولناک واقعہ پیش ہوا جب وطن واپسی پر سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قافلے کو کراچی میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔
18 اکتوبر 2007 کا دن اس ہولناک دہشت گردی کی یاد دلاتی ہے، جس کی مثال اس خطے کی تاریخ میں نہیں ملتی، اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو طویل جلا وطنی ختم کرکے کراچی پہنچیں تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔
نعروں اور ترانوں کی گونج میں ان کا قافلہ مزار قائد کی طرف بڑھ رہا تھا، کنٹینر پر سوار بے نظیر بھٹو ساتھیوں سمیت کارکنوں کے نعروں کا ہاتھ ہلا کر جواب دے رہی تھیں۔
قافلہ جب شارع فیصل پر کارساز کے قریب پہنچا تو یکے بعد دیگرے 2 بم دھماکوں نے سماں ہی بدل دیا، ہر طرف آہیں، سسکیاں اور ایمبولینسز کے سائرن سنے گئے۔
سانحہ کارساز میں 200سے زائد افراد ہلاک اور 500 سے زائد زخمی ہوگئے، اس سانحے کے ذمہ داران کا تاحال تعین نہیں ہوسکا، کوئی نہیں جانتا کہ منصوبہ ساز اور سہولت کار کون تھے اور دھماکے کیے کس نے؟ واقعے کا مقدمہ درج ہوا جس پر پیپلز پارٹی کے تحفظات تھے۔
عدالت کے حکم پر دوسری ایف آئی آر بھی درج ہوئی لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا، مقدمے کا تفتیشی افسر ڈی ایس پی حق نواز رانجھا اور 2 عینی گواہ خالد شہنشاہ اور بلال شیخ کو مختلف اوقات میں قتل کردیا گیا۔
اس وقت کے وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم نے تحقیقاتی ٹربیونل بنایا، 2008 میں پیپلزپارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک اور ٹربیونل بنا مگر کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی ثنا ءاللہ عباسی کی سربراہی میں 5رکنی انکوائری کمیٹی بنانے کا اعلان کیا مگر کچھ بھی نہیں ہوا، 2014 میں کیس سی ٹی ڈی کو منتقل کیا گیا جو آج تک داخل دفتر ہے ۔
Comments are closed on this story.