جرمنی کی سب سے بڑی مسجد میں پہلی بار اسپیکر پراذان
جرمنی کی سب سے بڑی مسجد میں جمعہ چودہ اکتوبرسے اسپیکر پراذان کی آواز پہلی بارگرد و نواح میں بھی سنی گئی۔
جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق جرمنی کے کئی شہروں میں مساجد کے مؤذنوں کو اسپیکر پر اذان دینے کی اجازت تھی مگر کولون میں یہ اجازت پہلی مرتبہ گزشتہ برس ہی دی گئی تھی، جس پر 14 اکتوبر سے عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔فیصلہ مرکزی مسجد کی انتظامیہ اور کولون شہر کے بلدیاتی حکام کے مابین معاہدے میں کیا گیا
انتہائی جدید طرز تعمیر والی اس مسجد کا افتتاح چند برس قبل ہوا تھا۔ یہ مسجد جرمنی میں مسلمانوں کی ایسی سب سے بڑی عبادت گاہ ہے، جو دیکھنے میں بھی مسجد نظرآتی ہے، ورنہ جرمنی میں اکثر مساجد کی عمارات دیکھنے میں مساجد نہیں لگتیں اور ان کے مینار بھی نہیں ہوتے۔
کولون شہر کی خاتون میئرہینریئٹے ریکرکے مطابق مسجد سے پہلی بار گرد و نواح میں سنی جا سکنے والی اور اسپیکر پر دی گئی اذان کی اجازت دراصل مقامی مسلم برادری کے لیے مذہبی ’احترام کی علامت‘ ہے۔
اس مسجد کا افتتاح سمتبر 2018 میں دورہ جرمنی کے دوران ترک صدررجب طیب ایردوآن نے ذاتی طور پر کیا تھا۔
مرکزی مسجد کو دی گئی اجازت کے مطابق مؤذن ہر جمعے کے روز با جماعت نماز کے لیے مقامی وقت کے مطابق دوپہر 12 بجے اور سہ پہر 3 بجے تک کے درمیان صرف ایک باراسپیکر پراذان دے سکے گا۔ اس اذان کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ 5 منٹ ہو گا اور اس کی آواز تکنیکی طور پر 60 ڈیسیبل سے زیادہ اونچی نہیں ہوگی۔
کولون شہر کے ایہرن فَیلڈ نامی علاقے میں واقع جرمنی کی اس سب سے بڑی مسجد کیلئے اجازت کا اطلاق ہر روز 5 مرتبہ دی جانے والی اذان پر نہیں ہوگا ، روزانہ اذان حسب معمول اسی طرح دی جائے گی کہ وہ اس مسجد اور اس سے ملحقہ کمیونٹی سینٹر سے باہر یا گرد و نواح میں سنائی نہیں دے گی۔
ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں دریائے رائن کے کنارے واقع تاریخی شہر کولون میں مسلمان کافی زیادہ تعداد میں بستے ہیں۔ اکثریت کا تعلق باقی ماندہ جرمنی میں بسنے والے سلمانوں کی طرح ترک نژاد مسلم باشندوں سے ہے۔
کولون شہرمیں اس مسجد کا انتظام ترک حکومت کے جرمنی کے لیے مذہبی امور کے ادارے دیتیب (DITIB) کے پاس ہے۔
اتھارٹی کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمان اتاسوئے نے کہا، ’’ہم بہت خوش ہیں، مسجد میں اسپیکر پر اذان دے سکنا اس امر کی علامت ہے کہ یہاں بھی مسلمان خود کو ویسا ہی محسوس کرتے ہیں جیسے کوئی اپنے ہی گھر یا ملک میں ہو۔‘‘
Comments are closed on this story.