زندگی بھر کے لئے کسی کو نااہل کرنا اتنا آسان نہیں: چیف جسٹس
سپریم کورٹ میں فیصل واڈا کی نااہلی کے خلاف اپیل پرسماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ زندگی بھرکے لئے کسی کونااہل کرنا اتنا آسان نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے فیصل واڈاکی نااہلی کے خلاف اپیل پرسماعت کی۔
سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فیصل واڈا کا سارا جھگڑا سینیٹ کی نشست کا ہے۔
فیصل واڈا کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ میرے موکل نے حقائق چھپائے نہ بددیانتی کی۔
’ فیصل واڈا نے کاغذات نامزدگی کب جمع کرائے؟ ’
جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل وسیم سجاد سے سوال کیا کہ فیصل واڈا نے کاغذات نامزدگی کب جمع کرائے؟
وکیل وسیم سجاد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ فیصل واڈا نے کاغذات نامزدگی 7 جون 2018 کو جمع کرائے، ان کے کاغذات نامزدگی کی اسکروٹنی 18جون کو ہوئی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے پھر سوال کیا کہ فیصل واڈا نے بیان حلفی کب جمع کرایا تھا؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ فیصل واڈا نے بیان حلفی 11 جون 2018 کو جمع کرایا، ریٹرننگ افسر کو بتا دیا تھا امریکی شہریت چھوڑ دی ہے۔
’ فیصل واڈا نے کس تاریخ کو امریکی سفارتخانے جا کر شہریت منسوخ کرائی؟ ’
جسٹس عائشہ ملک نے فیصل واڈا کے وکیل سے سوال کیا کہ انہوں نے کس تاریخ کو امریکی سفارت خانے جا کر شہریت منسوخ کرائی؟۔
وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ میرے مؤکل نے امریکی سفارت خانے جا کر کہہ دیا تھا کہ نیشنلٹی چھوڑ رہا ہوں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا آپ نے ایمبیسی جا کر زبانی بتا دیا کہ میرا پاسپورٹ کینسل کر دو؟جس پر فیصل واڈا کے وکیل نے کہا کہ امریکی شہریت چھوڑنے کا ثبوت میں نے تو نہیں دینا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پھر سوال کیا کہ بیان حلفی 11 جون کو جمع کرانے سے پہلے آپ نے زحمت ہی نہیں کی کہ دہری شہریت کا معاملہ ختم کریں؟
’ اصل سوال تاحیات نااہلی کے ڈیکلریشن کا ہے جو کمیشن نہیں دے سکتا ’
وکیل وسیم سجاد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نادرا نے 29 مئی 2018 کو امریکی شہریت کینسل ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ جب آپ نے امریکی سفارت خانے جا کر شہریت کینسل نہیں کرائی تو نادرا نے سرٹیفکیٹ کیسے جاری کر دیا؟۔
انہوں نے کہا کہ بیان حلفی جمع کراتے وقت فیصل واڈا کی امریکی شہریت کینسل نہیں ہوئی تھی۔
فیصل واڈا کے وکیل نے کہا کہ اصل سوال تاحیات نااہلی کے ڈیکلریشن کا ہے جو کمیشن نہیں دے سکتا۔
’ آرٹیکل62 ون ایف کا ڈیکلریشن عدالت ہی دے سکتی ہے ’
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل62 ون ایف کا ڈیکلریشن عدالت ہی دے سکتی ہے، شواہد کا جائزہ لیے بغیر کسی کو بددیانت یا بے ایمان نہیں کہا جاسکتا، زندگی بھر کے لئے کسی کو نااہل کرنا اتنا آسان نہیں، عدالتی ڈیکلریشن کا مطلب ہے شواہد ریکارڈ کیے جائیں۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق کا معیار مقرر کرچکی ہے، فیصل واڈا نے امریکی شہریت کا غذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد چھوڑی۔
وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ دوہری شہریت پر آرٹیکل 63 ون سی کا اطلاق ہوتا ہے، دوہری شہریت پررکن صرف ڈی سیٹ ہوتا ہے تاحیات نااہل نہیں۔
عدالت نے مزید سماعت 12 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed on this story.