Aaj News

جمعرات, نومبر 21, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

جنگلات میں آگ، بلین ٹری سونامی منصوبے کی شفافیت پر سوالات

جنگلات میں آگ اس لئے لگائی جارہی ہے تاکہ منصوبے میں کرپشن کو چھپایا جاسکے، اختیار ولی
شائع 05 اکتوبر 2022 05:42pm
تصویر بزریعہ اے ایف پی
تصویر بزریعہ اے ایف پی

خیبرپختونخوا کے جنگلات میں آتشزدگی لگنے کے واقعات اورآڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آڈٹ رپورٹ نے بلین ٹری سونامی منصوبے کی شفافیت پرسوالات کھڑے کردیے ہیں۔

محکمہ جنگلات خیبرپختونخوا سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق رواں سال خیبرپختونخوا کے جنگلات میں آگ لگنے کے 358 واقعات سامنے آئے، جن میں 313 زمینی، 34 سطحی اور شاخ دار یا چوٹی دار واقعات شامل ہیں۔

زمینی، سطحی اور چوٹی دار آگ کیا ہے؟

اس درجہ بندی کو عام فہم بنایا جائے تو محکمہ جنگلات کے مطابق زمینی آگ زمین کے اوپر بوسیدہ نباتاتی تہہ میں لگتی ہے جہاں سے شعلہ نظر نہ آئے۔

سطحی آگ زمین کے اوپر گھاس، جھاڑیوں، بوٹیوں کا تیزی سے جلنا اور آگ کا پھیلنا ہوتا ہے جہاں شعلہ بھی نمایاں ہو، جبکہ شاخ دار یا چوٹی دارآگ وہ ہوتی ہے جو پورے درخت کو لپیٹ میں لے اور جہاں سے آگ کے اونچے اونچے شعلے اٹھتے ہوں، یہ آگ ایک درخت سے دوسرے درخت کی چوٹی تک پھیل جاتی ہے۔

آتشزدگی کے واقعات کن جنگلات میں سب سے زیادہ پیش آئے

محکمہ جنگلات کے سیکرٹری کے ذریعے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق 43 فیصد آگ کے واقعات نجی جنگلات سے رپورٹ ہوئے جبکہ 26 اعشاریہ 9 فیصد واقعات محفوظ جنگلات سے سامنے آئے۔

اسی طرح 13 فیصد عوامی جنگلات، 7 اعشاریہ 8 فیصد ممنوعہ جنگلات اور6 اعشاریہ 3 فیصد واقعات گزارہ جنگلات سے رپورٹ ہوئے ہیں۔

محکمہ جنگلات کے مطابق ممنوعہ جنگلات کی زمین اوردرخت دونوں حکومت کی ملکیت ہوتی ہے۔ گزارہ جنگلات میں زمین اوردرخت دونوں لوگوں کی ملکیت ہوتی ہے تاہم نظام و انصرام کی ذمہ داری محکمہ جنگلات کے پاس ہوتی ہے جبکہ عوامی جنگلات قوم کی مشترکہ ملکیت ہوتی ہے۔

محکمہ جنگلات کی جاری کردہ معلومات کے مطابق آگ لگنے کے واقعات سے بلین ٹری منصوبے کا 436 ہیکڑرقبہ بھی متاثر ہوا جو 1 ہزار 77 ایکڑ، 8 ہزار 619 کنال یا پھر1لاکھ 72 ہزار380 مرلہ رقبہ بنتا ہے۔

دستاویز کے مطابق آگ کی وجہ سے مجموعی طور پر 18 ہزار 795 ایکڑزمین متاثر ہوئی۔ جس میں نجی جنگلات کی 6 ہزار 315 ایکڑ (33اعشاریہ 61فیصد) ،عوامی جنگلات کی 6 ہزار 301 ایکڑ(33اعشاریہ 53 فیصد)،محفوظ جنگلات کی 2 ہزار 880ایکڑ(15 اعشاریہ 32 فیصد)،ممنوعہ جنگلات کی 2ہزار 472 ایکڑ (13اعشاریہ 15 فیصد) اور گزارہ جنگلات کی 824ایکڑ(4اعشاریہ 30 فیصد) زمین متاثر ہوئی ہے۔

کُل 358 واقعات میں 38 (10 اعشاریہ 5 فیصد) قدرتی وجوہات کی وجہ سے پیش آئے جبکہ 64 (18 فیصد) واقعات لوگوں کے آگ لگانے کی وجہ سے سامنے آئے، جس میں تفریحی مقصد کے لیے جنگلوں میں آنے والے سیاحوں کا غیر دانستہ طور پر آگ کا سبب بننا بھی شامل ہے۔ تاہم محکمہ جنگلات کو 256 (71 اعشاریہ 5 فیصد) واقعات کے وجوہات کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔

بلین ٹری مصوبے کی شفافیت پر سوال؟

ایک طرف جنگلات میں آگ لگنے کے سینکڑوں واقعات رونما ہوچکے ہیں تو دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے بلین ٹری سونامی منصوبے میں بے قاعدگیاں بھی سامنے آئی ہیں۔

آڈیٹرجنرل آف پاکستان کی 3 سالہ خصوصی رپورٹ میں منصوبے میں 3 ارب 49 کروڑ 35 لاکھ روپے سے زیادہ کی بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں 98 کروڑ 29 لاکھ روپے کے اخراجات کو جعلی، 1 ارب 25 کروڑ 90 لاکھ روپے کے اخراجات کو مشکوک اور 1 ارب 25 کروڑ 16 لاکھ کے اخراجات کو غیر ضروری قرار دیا گیا ہے۔

آڈیٹر جنرل سے حاصل کردہ دستاویزات کے مطابق فرضی انکلوژرز کے باعث قومی خزانے کو 30 کروڑ 55 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا۔

آڈٹ کا خیال ہے کہ انکلوژرز کے قیام میں دھوکہ دہی کی گئی جبکہ اوور لیپنگ نے تمام افسروں اور اہلکاروں کے انتظام اور پیشہ ورانہ مہارت پر سوالیہ نشان لگایا۔

آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈی ایف او اورکزئی اور گلزم ڈویژن نرسریز میں 76 لاکھ 71 ہزار 400 پودے ریکارڈ پرلائے گئے، جبکہ مذکورہ ڈویژن نے مختلف علاقوں میں 1 کروڑ 9 لاکھ 12 ہزار 930 پودوں کا استعمال ظاہر کیا ہے، تاہم 3 کروڑ 24لاکھ روپے کے زائد پودوں کا ریکارڈ ہی دستاب نہیں جس سے تمام سرگرمیاں غیر مستند اورمشکوک ہوگئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیرمستند ذرائع سے حاصل کردہ غیر تصدیق شدہ بیج سے نہ صرف حکومت کو 10 کروڑ 93 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا، بلکہ پودوں کی ناکامی کے امکانات بھی بڑھے۔

آڈیٹرز نے مشاہدہ کیا ہے کہ مختلف سرکلز نے پراجیکٹ کے تحت مختلف نرسریاں قائم کیں جن سے 5 کروڑ 10 لاکھ 7 ہزار پودے تیار ہوئے اور ان میں سے 2 کروڑ 80 لاکھ پودے استعمال میں لائے گئے، جبکہ باقی 2 کروڑ 30 لاکھ پودوں کا کوئی سراغ نہیں ملا، جس کی وجہ سے قومی خزانے کو 19 کروڑ 57 لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔

اسی طرح خیبرپختونخوا اسمبلی ویب سائٹ سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق کالام فرسٹ ڈویژن نے بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے تحت 6 نجی نرسریز کے ساتھ معاہدے کئے تھے جس میں 52 لاکھ 50 ہزارروپے خرچہ آیا تھا، تاہم بعد میں 6 نرسریز میں گھپلے ہونے اور پھر عوامی شکایات کے نتیجے میں ڈویلپمنٹ آفیسر کالام کیخلاف محکمانہ انکوائری بھی عمل میں لائی گئی تھی، لیکن تاحال کوئی کارروائی یا ریکوری سامنے نہیں آئی۔

خیبرپختونخوا اسمبلی کے رکن سراج الدین کے سوال کے جواب میں جمع اسمبلی ویب سائٹ سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق بلین ٹری منصوبے پر سال 2014 سے اب تک 4 ارب 35 کروڑ 27 لاکھ 32 ہزار سے زائد لاگت آئی اور اب تک 16 کروڑ 79 لاکھ 17 ہزار 457 پودے لگائے گئے ہیں۔

دستاویز کے مطابق پشاور ڈویژن میں 1 کروڑ 33 لاکھ 7 ہزار762، ڈی آئی خان ڈویژن میں 5 کروڑ 26 لاکھ 68 ہزار 925 اور بنوں ڈویژن میں 3 کروڑ 70 لاکھ 90 ہزار 725 پودے لگائے گئے۔

آتشزدگی کے واقعات اور قانونی کارروائیاں

محکمہ جنگلات کے ترجمان لطیف الرحمان کے مطابق جنگلات میں آگ لگانے کے واقعات پر 56 مقدمات درج کئے ہیں۔ مقدمات میں 32 معلوم اور 25 نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں صرف ایک شخص جاں بحق ہوا جبکہ سرکاری جنگلات میں صنوبر (پائن) کے 22 قیمتی درخت بھی جل چکے ہیں ، ایک درخت کی قیمت 5 لاکھ روپے ہے جبکہ مجموعی طور 22 درختوں کا تخمینہ 60 لاکھ روپے بنتا ہے۔

لطیف الرحمان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں جنگلات میں آگ سے بچنے کیلئے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے کیمپ سائٹس پر بی بی کیو سمیت آگ بجھانے جیسی سرگرمیوں پر دفعہ 144 کے تحت پابندی عائد کردی گئی ہے، جبکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کیلئے مساجد، حجروں، بل بورڈز کی تنصیب اور عوامی نمائندوں کے ذریعے احتیاطی اقدامات کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جارہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت کو مستقبل میں جنگلات میں آگ بجھانے کیلئے ہوائی جہاز کے استعمال کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

’بلین ٹری منصوبہ کرپشن کیلئے ہی شروع کیا گیا‘

اکثر آگ لگنے کے واقعات کی وجوہات کے بارے میں لاعلمی اور پھر آڈٹ رپورٹ میں سنگین بے قاعدگیوں کی وجہ سے پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت کے سیاسی مخالفین نے حکومت پر واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) خیبرپختونخوا کے ترجمان و ممبر خیبرپختونخوا اسمبلی اختیارولی نے الزام عائد کیا کہ بلین ٹری منصوبہ کرپشن کیلئے ہی شروع کیا گیا تھا کیونکہ اس میں ایسے پودے شامل ہیں جس کی قیمت 3 روپے سے لیکر 50 روپے تک ہے، لیکن حکومت نے کاغذات میں قیمت 3 ہزار روپے تک بتائی ہے اور اب جنگلات میں آگ اس لئے لگائی جارہی ہے تاکہ منصوبے میں کرپشن کو چھپایا جاسکے۔

اختیار ولی نے کہا کہ منصوبے کی تحقیقات کیلئے پارلیمنٹ کی سلیکٹڈ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے کئی مخصوص سائٹس کا دورہ کیا لیکن وہاں پودے نہیں پائے گئے اور بعد میں حکومتی ارکان خوف کی وجہ سےکمیٹی چھوڑ گئے۔

اختیار ولی نے سوال اٹھایا کہ اگر منصوبے میں کرپشن نہیں ہوئی ہے تو حکومت تحقیقات سے کیوں بھاگ رہی ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی خیبرپختونخوا کے ترجمان و رکن خیبرپختونخوا اسمبلی امجد آفریدی کا مؤقف ہے کہ جہاں جہاں بلین ٹری منصوبے کے تحت پودے لگائے گئے تھے وہیں آگ لگا دی گئی اور اب کیوں اور کیسے لگی کس کو وجوہات کے بارے میں کچھ علم نہیں۔

امجد آفریدی نے مطالبہ کیا کہ منصوبے کے تحت کون کون سی نرسریز کو شامل کیا گیا اس کی انکوائری کرلیں تو بلین ٹری منصوبے کی حقیقت سب کے سامنے آجائے گی۔

عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی ترجمان اور خیبرپختونخوا اسمبلی کی رکن ثمر بلور کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کیلئے بلین ٹری جیسے منصوبے کی اشد ضرورت ہے تاہم اس منصوبے میں بے قاعدگیوں اور بدعنوانی کی انکوائری بھی ضروری ہے کیونکہ خیبرپختونخوا کے ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن کے ان جنگلات میں آگ لگائی گئی جہاں اسمبلی کی سیلکٹ کمیٹی کا دورہ متوقع تھا۔

ترجمانوں نے دعویٰ کیا کہ کہ کمیٹی نے بنوں ڈویژن میں 4 پلانٹیشن سائٹس کا دورہ کیا جس میں نالی چک قابل ذکر ہے جہاں محکمہ جنگلات کے اہلکاروں نے 10 لاکھ پودے ریکارڈ میں ظاہر کئے لیکن حقیقت میں ایک ہزار بھی نہیں لگائے گئے اور مجموعی 11 ہزار کنال رقبہ پر لگائے جانیوالے 90 فیصد پودے غائب پائے گئے۔

وزیرجنگلات خیبرپختونخوا اشتیاق آرمڑ نے مؤقف دیا کہ کرپشن اور بے ضابطگیوں پر کارروائی کرکے 365 افراد سے لاکھوں کی ریکوری کی گئی ہے تاہم آڈٹر جنرل کی رپورٹ حقیقت پر مبنی نہیں کیونکہ جتنی رقم کی بے قاعدگیوں کا ذکر کیا گیا وہ رقم دراصل محکمے کو ملی ہی نہیں جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے ممبران سیاسی مقاصد کیلئے بلین ٹری منصوبے پرجھوٹے الزامات لگا رہے ہیں۔

الزامات عوام کے سر

پشاور ہائیکورٹ میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافے سے متعلق کیس میں محکمہ جنگلات کے سیکرٹری کی جانب سے جمع کردہ رپورٹ میں ممکنہ وجوہات کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ جنگلات پر انحصار کرنے والی کمیونیٹیز روایتی طور پرمویشیوں کیلئے گھاس حاصل کرنے کیلئے خشک گھاس کو جلا دیتی ہیں، جبکہ زمینوں کو صاف کرنے کیلئے آگ بھی لگائی جاتی ہے جس کے نتیجے میں بعض اوقات غیر ذمہ دارانہ اور تیز ہواؤں کی وجہ سے جنگل میں آگ لگ جاتی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ عام طور پر مقامی دشمنیوں کی وجہ سے زرعی پیداوار اور درختوں کو جلایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں جنگلات میں بہت بڑی آگ لگ جاتی ہے اور شیرانی اور شانگلہ کے جنگلات میں بھی یہی وجہ سامنے آئی۔

ہائیکورٹ کو بتایا گیا ہے کہ بلین ٹری منصوبے کے تحت مالکان کی زمینوں پر بڑے بڑے جنگلات لگائے گئے اور ان منصوبوں سے پہلے یہ علاقہ جات مال چراہی کیلئے مقامی لوگ استعمال کرتے تھے جو جنگلات لگانے کے بعد مال مویشیوں کو چرانے کیلئے بند کیے گئے، جس کے نتیجے میں مقامی لوگوں کی اشتعال انگیزی کی صورت میں جنگلات کو آگ لگانے کے واقعات رونما ہوئے۔

پشاور ہائیکورٹ میں جمع کردہ رپورٹ میں یہ وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں کہ ایسی افواہیں بھی سامنے آئیں کہ حکومت جنگلات میں آگ لگنے کی وجہ سے نقصانات کی مد میں معاوضہ دیتی ہے، جس کی وجہ سے لوگ خود بھی آگ لگانے کے مرتکب قرار پائے، محکمہ جنگلات ہر سال بڑی آگ سے بچنے کیلئے دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں آگ پر قابو پانے کی مشق کرتا ہے جو کہ اب نہیں ہوتی، کیونکہ جنگلات کے قریب آبادیاں اور دیگر مقامات تعمیر ہیں جبکہ جنگلات کا عملہ دیگر مصروفیات کی وجہ سے بھی یہ کام سرانجام نہیں دے سکتا جس کی وجہ سے بھی جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کا قہر

پاکستان کے محکمہ موسمیات (پی ایم ڈی ) کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال مارچ میں بارشیں معمول سے62 فیصد کم ہوئی اور 1961 کے بعد مارچ کا مہینہ خشک ترین مہینوں کے فہرست میں نویں نمبر پر رہا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بارشوں میں کمی اور درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافہ آگ لگنے کے محرکات میں شامل ہیں۔

بلین ٹری منصوبے کو لاحق خطرات

ورلڈ وائڈ فنڈ فارنیچر پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان) کی جانب سے بلین ٹری سونامی منصوبے سے متعلق ریسرچ رپورٹ میں بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ بلین ٹری سونامی منصوبے کو سیاسی مفادات، حکومت کی تبدیلی، خشک سالی کی صورت میں موسمیاتی تبدیلی اور سیلاب و آگ جیسے قدرت آفات سے خطرات لاحق ہیں جبکہ محدود وسائل، طویل مدتی منصوبہ بندی کی غیر موجودگی، تربیت یافتہ عملے اور ماہرین کی کمی کی وجہ سے بھی منصوبہ مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے لیکن ان خدشات کے باوجود کوئی مؤثر اقدامات نظر نہیں آرہے۔

اسی طرح بلین ٹرمی منصوبے کی اہمیت پر ریسرچ گیٹ ویب سائٹ سے حاصل کردہ رپورٹ میں بھی لکھا گیا ہے کہ منصوبے میں شفافیت اور بدعنوانی کے خاتمے کیلئے اصلاحات کی ضرورت ہے جبکہ مستقبل میں جنگلات کے تحفظ کیلئے عوام میں بھرپور آگاہی مہم ناگزیر ہے۔

جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات اور بلین ٹری منصوبے میں بے قاعدگیوں کے پیش نظر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چئرمین نور عالم خان کی سربراہی میں اجلاس میں نیب کو بلین ٹری سونامی منصوبے کی دوبارہ انکوائری کرکے رپورٹ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش کرنے ہدایت کی گئی تھی، تاہم پشاور ہائیکورٹ سے ایک رٹ پٹیشن میں یہ استدعا کی گئی تھی کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے پاس انتظامی امور میں مداخلت کا اختیار ہے نہ ہی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا دائرہ اختیار عدالت یا ٹریبونل میں آتا ہے، اس لئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلے کو معطل کیا جائے۔

اسی استدعا کو پشاور ہائیکورٹ نے منظور کرکے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کرکے نیب کو رواں ماہ کی 19 تاریخ تک انکوائری سے روکا ہوا ہے۔

پاکستان

Billion Tree Tsunami

forest fire