الطاف حسین نے لندن سے بیٹھ کر کراچی پر راج کیسے کیا؟
پاکستان کے تجارتی دارالحکومت کے قلب میں واقع پریس کلب میڈیا کوریج حاصل کرنے کے لیے ایک آسان جگہ ہے، اور تقریباً ہر ہفتے کسی نہ کسی تنظیم یا دیگر کی جانب سے وہاں مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
تاہم، بہت کم لوگ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) جس کے کارکنوں نے اگست 2016 میں پریس کلب کے باہر ڈیرے ڈالے تھے، ان کے صبر اور ساکھ کا مقابلہ کرپائے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ”بلوم برگ“ نے ایم کیو ایم (لندن) کے سربراہ اور ”متحدہ“ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کے حوالے سے ایک تحریر شائع کی ہے، جس میں ان پر اور پاکستانی اداروں پر سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں۔
ایم کیو ایم کی سابق طاقت
1980 کی دہائی میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ایم کیو ایم اور اس کے قائد الطاف حسین 22 ملین سے زائد کی آبادی والے شہر کراچی میں ایک غالب قوت رہے ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیوں کے سی ای اوز سے لے کر معمولی دکانداروں تک ہر کسی نے ان کی تپش محسوس کی ہے، جو جارحانہ طور پر نافذ کی گئی ہڑتالیں تھیں۔
جب بھی ایم کیو ایم کی کسی سینئر شخصیت کو مارا یا گرفتار کیا گیا، یا کوئی سیاسی فیصلہ پارٹی کی خواہشات کے خلاف ہوا شہر بند ہوا، پھر شروع ہونے والا ہنگامہ کراچی کی اسٹاک مارکیٹ کو کریش کر دیتا اور روزمرہ کی زندگی کا تقریباً ہر پہلو متاثر ہوتا۔
ایم کیو ایم کو ایک سیاسی جماعت کے ساتھ ساتھ ایک گروہ قرار دیا گیا جو بڑے پیمانے پر اپنی سرگرمیوں اور لیڈران کے طرز زندگی کے لیے کاروبار اور منشیات کی اسمگلنگ کے ذریعے فنڈز فراہم کرتی تھی۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں اس جماعت کے پاس طویل عرصے سے کسی بھی جماعت کا کیریئر بنانے یا توڑنے کا اختیار ہے، جس کا شکار حال ہی عمران خان بھی ہوئے ہیں۔
ایم کیو ایم کا زوال
لیکن پریس کلب کے باہر احتجاج سے پہلے کے مہینوں میں ایم کیو ایم شدید دباؤ کا شکار رہی۔ پاکستان کی فوج، جو ملک کا سب سے طاقتور ادارہ ہے، اس نے کراچی کو چینی سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ماحول بنانے کی وسیع کوششوں کے تحت ایم کیو ایم کے درجنوں کارکنوں کو مبینہ طور پر ”غائب“ کر دیا تھا۔
لاہور کی ایک عدالت نے میڈیا پر الطاف حسین کی تصویر یا تقاریر شائع کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت مخالف باتیں غداری کی ایک شکل ہیں۔
کئی دہائیوں میں پہلی بار ایم کیو ایم اپنی گرفت کھونے کے خطرے سے دوچار دکھائی دی۔
بھوک ہڑتالی کیمپ میں ”الطاف زندہ باد“ کے نعروں کے درمیان، کچھ نے اپنے ”بھائی“ کے لیے اپنی جان دینے کا عہد کیا۔
الطاف حسین کے زوال کا آغاز
2016 کی اُس دوپہر الطاف حسین نے فوج اور حکومت کے خلاف تقریباً 100 منٹ کا طنزیہ بیان دینا شروع کیا۔ انہوں نے اپنے کچھ سخت الفاظ میڈیا اداروں کے لیے مخصوص کیے جنہوں نے ایم کیو ایم کو کور کرنے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے سامعین سے سوال کیا، ”تم نے جاکر ان کی نشریات بند کیوں نہیں کیں؟“
کسی نے فوراً جواب دیا۔ ”ہم ابھی ان کے کیمرے توڑ دیں گے بھائی۔ ہمیں حکم دو۔“
ایک ہجوم نے پاس ہی موجود مقامی چینل اے آر وائی نیوز کے استقبالیہ کے دروازے توڑ دیے اور فرنیچر کو نقصان پہنچایا، سیکیورٹی گارڈز کا پیچھا کیا اور انہیں لاٹھیوں سے مارا۔
باہر گولیوں کی آوازیں سنی جا سکتی تھیں اور جلد ہی کئی گاڑیوں میں آگ لگ گئی۔ دن کے اختتام تک، ایک شخص ہلاک اور کئی زخمی ہوئے، جن میں ایک پولیس اہلکار بھی شامل تھا جسے مارا پیٹ کر بے ہوش کر دیا گیا۔ اے آر وائی اور ایک اور ٹی وی اسٹیشن آف ائیر تھا۔
الطاف حسین نقصان کا مشاہدہ کرنے کے لیے شہر میں نہیں تھے۔ انہوں نے لندن سے فون پر اپنی تقریر کی، جہاں وہ منی لانڈرنگ سے لے کر قتل تک کے الزامات کے باوجود 30 سال جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
زیادہ تر وقت وہ ایم کیو ایم پر مضبوطی سے کنٹرول کرتے رہے۔ مِل ہل کے پتوں والے مضافاتی علاقے سے کارروائیوں کی ہدایت کرتے رہے۔
پاکستانی حکام اور کچھ برطانوی قانون سازوں نے ان کی برطانیہ میں موجودگی پر بار بار اعتراض اٹھایا ہے، اور برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انہیں اپنی سرزمین سے ایک “بے رحم عسکریت پسند قوت “کے طور پر کام کرنے سے روکنے کے لیے کارروائی کرے۔
لیکن وہ آزادانہ طور پر کام کرنے میں کامیاب رہے ہیں، چوبیس گھنٹے فون کالز کے ذریعے ”ساتھیوں“ کے ایک بڑے نیٹ ورک کی کمانڈ کرتے ہیں۔
کراچی کا سب سے اہم پاور بروکر کس طرح تقریباً چار ہزار میل دور سے ڈوریں ہلا رہا تھا؟
الطاف حسین کا معاملہ غیر معمولی ہے، ان کی طرح بہت سے جلا وطنوں کی طرح اقتدار میں واپسی کی سازش کرنے کے بجائے، انہوں نے درحقیقت دنیا کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک اور پاکستان میں قومی طاقت کے توازن کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
یہ کہانی سرکاری دستاویزات، عدالتی شواہد اور اس میں ملوث دو درجن افراد کے انٹرویوز پر مبنی ہے، جن میں سے اکثر نے قانونی حساسیت یا خدشات کی وجہ سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔
الطاف حسین بارہا مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی تردید کر چکے ہیں اور ٹی وی اسٹیشن حملوں میں اپنے کردار کے لیے یہ کہتے ہوئے کہ ان کی اشتعال انگیز تقریر ذہنی پریشانی کا نتیجہ تھی، عوامی طور پر معافی بھی مانگی ہے۔
تاہم، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تقریب نے الطاف حسین کے لیے بالکل اسی طرح کام کیا جیسے دوسرے ہنگاموں کو انہوں نے اپنے طویل کیریئر کے دوران جنم دیا۔
ندیم نصرت، جو الطاف حسین کے اعلیٰ ترین لیفٹیننٹ میں سے ایک تھے، نے واقعے کے فوراً بعد ایک انٹرویو میں کہا کہ ”میں اسے تشدد نہیں کہوں گا، اسے حقیقی سیاست کہتے ہیں۔“
یہاں تک کہ جنوبی ایشیا کے بڑے شہروں کے معیار کے اعتبار سے بھی کراچی ایک پیچیدہ جگہ ہے۔ یہ 1950 میں بمشکل ایک ملین افراد کا گھر تھا، اس کی آبادی ہندوستان سے آنے والے پناہ گزینوں سے بڑھی، جو اسلامی جمہوریہ پاکستان بننے کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔
ترقی نے کراچی کے بنیادی ڈھانچے کو تیزی سے مغلوب کر دیا، یہاں کوئی منظم ماس ٹرانزٹ سسٹم نہیں، کوئی حقیقی شہر کا مرکز نہیں بس کچھ ہی سبز جگہیں ہیں۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ کچی آبادیوں میں رہتا ہے۔
الطاف حسین کا عروج
اگرچہ الطاف حسین 1953 میں کراچی میں پیدا ہوئے تھے، تاہم انہوں نے ہمیشہ اپنی شناخت ایک مہاجر کے طور پر ظاہر کی ہے۔ ایک اصطلاح جو ہنداوستان سے پاکستان ہجرت کرکے آںے والوں کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔
دہلی سے تقریباً 140 میل جنوب آگرہ میں الطاف حسین کے والد کے پاس ریلوے اسٹیشن مینیجر کے طور پر ایک باوقار ملازمت تھی۔ کراچی میں انہیں صرف ایک ٹیکسٹائل مل میں کام مل سکا۔
ان کا انتقال اس وقت ہوا جب الطاف حسین صرف 13 سال کے تھے، وہ اپنے 11 بچوں کو الطاف حسین کے بھائی کی سول سروس کی تنخواہ کے ساتھ ساتھ والدہ کی کپڑے سلائی کرنے پر منحصر چھوڑ گئے۔
مہاجروں میں اس طرح کی زندگی عام تھی، جو سندھ کے مقامی باشندوں کی طرف سے امتیازی سلوک کا نشانہ بنے رہے تھے۔
اپنی برادری کی حالت زار سے ناراض الطاف حسین اور مہاجر طلباء کے ایک گروپ نے 1984 میں ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی، اور الطاف حسین نے اس مقصد کے لیے شدید عقیدت کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔
جب وہ 26 سال کے تھے تو ایک احتجاج کے نتیجے میں انہیں نو ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا اور پانچ کوڑے مارے گئے۔
مذہبی طور پر اعتدال پسند اور امتیازی اقدامات کو تبدیل کرنے پر توجہ مرکوز کرنے والی ایم کیو ایم نے کراچی میں ایک بڑی فالوونگ بنائی، اور قومی و صوبائی پارلیمانوں میں نشستیں جیتیں۔
یوکے ڈپلومیٹک کیبلز اور دو سابق پاکستانی حکام کے مطابق انہیں فوج کی حمایت حاصل ہوئی، جس نے پارٹی کو دوسرے سیاسی دھڑوں کے خلاف ایک کارآمد طاقت کے طور پر دیکھا۔
اگرچہ الطاف حسین کبھی بھی منتخب عہدے کے لیے کھڑے نہیں ہوئے، لیکن وہ ایم کیو ایم کا ناگزیر چہرہ تھے، ان کی تصاویر تمام علاقوں میں آویزاں تھیں۔
شروع سے ہی ایم کیو ایم کی کارروائیاں سیاسی تنظیم سازی سے بالاتر تھیں۔ جیسا کہ جب 1980 کی دہائی کے وسط میں مہاجروں، سندھیوں اور پشتونوں کے درمیان نسلی فرقہ وارانہ تشدد بڑھتا گیا تو الطاف حسین نے ایک ریلی میں اپنے فالوورز پر زور دیا کہ وہ اپنے دفاع کے لیے ”ہتھیار اور کلاشنکوفیں خریدیں“۔
انہوں نے پوچھا، ”جب وہ تمہیں مارنے آئیں گے، تم اپنی حفاظت کیسے کرو گے؟“
پارٹی نے کراچی کے آس پاس اسلحے کے ذخیرے قائم کیے، جن میں اس کے بڑے عسکری ونگ کے لیے اسالٹ رائفلیں موجود تھیں۔
دریں اثناء، الطاف حسین تنظیم پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے تھے، اور ان کی قیادت کو چیلنج کرنے والے ہر شخص پر تنقید کر رہے تھے۔
فروری 1991 کی ایک کیبل میں پیٹرک ووگن نامی ایک برطانوی سفارت کار نے بتایا کہ کس طرح ایم کیو ایم کے ایک اعلیٰ سطحی رابطے کے مطابق الطاف حسین نے اختلاف کرنے والوں کے نام پولیس کمانڈروں کو بھیجے، جن میں ”ان کے ساتھ سختی سے نمٹنے“ کی ہدایات تھیں۔ (الطاف حسین کسی کو زخمی کرنے یا مارنے کی ہدایات دینے سے انکار کرتے رہے ہیں)۔
یہاں تک کہ مراعات یافتہ طبقے کو بھی براہ راست خطرہ لاحق ہوا۔ ایک پاکستانی جنہوں نے انتقام کے خوف سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، بتاتے ہیں کہ اپنی خاندانی ٹیکسٹائل فیکٹری کے چور مینیجر کو گرفتار کر کے انہوں نے پارٹی کو غصہ دلایا، اس بات سے بے خبر کہ ملازم ایم کیو ایم کا ڈونر تھا۔ 1991 میں ایک دوپہر، بندوقوں کے ساتھ چار آدمی فیکٹری مالک کی کار میں زبردستی گھسے اور اسے شہر کے کنارے پر واقع ایک فارم ہاؤس تک لے گئے۔ وہاں، انہوں نے اسے استرے والے بلیڈ سے کاٹا اور اس کی ٹانگوں میں پاور ڈرل سے سوراخ کئے۔
ایم کیو ایم نے اغوا کے پیچھے ہاتھ ہونے کی تردید کی، لیکن جب مقتول کے اہل خانہ نے سیاسی رابطوں سے پارٹی پر دباؤ بڑھایا تو انہیں رہا کر دیا گیا، وہ خون سے بھیگے کپڑوں میں گھر پہنچے۔
1992 میں کراچی کے مزید غیر مستحکم ہونے کے بعد فوج نے شہر میں ایک بڑی فورس بھیجی، جس نے جلد ہی ایم کیو ایم کے بندوق برداروں کے ساتھ کھلی لڑائی شروع کر دی۔
الطاف حسین کے بھتیجے اور سب سے بڑے بھائی سمیت ہزاروں لوگ بالآخر مارے گئے۔
الطاف حسین یہ دعویٰ کرتے ہوئے برطانیہ چلے گئے کہ انہیں قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں وہاں سیاسی پناہ دیدی گئی۔
اس کے بعد سے وہ ایم کیو ایم کو فون اور فیکس کے ذریعے مل ہل کی ایک پُرسکون سڑک پر ایک نیم علیحدہ گھر سے چلا رہے ہیں جو دوسرے جلاوطنوں سے بھری ہوئی تھی۔
پاکستان میں لائن کے دوسرے سرے پر ان کی آواز بڑے بڑے اسپیکرز سے ریلیوں میں گونجتی تھی۔
بھارت سے تعلقات کا الزام
انہوں نے جہاں سے بھی موقع ملا مدد حاصل کی۔ ووگن سے ملاقات کرتے ہوئے، ایم کیو ایم کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ الطاف حسین نے پاکستان کے حریف ہندوستان کے ایک سینئر سفارت کار کے ساتھ ”خفیہ ملاقات“ کرنے میں مدد کی درخواست کی تھی۔
امریکا میں 11/9 حملوں کے فوراً بعد الطاف حسین نے وزیراعظم ٹونی بلیئر کو ایک رسمی خط بھیجا، جس میں پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) سے تحفظ کے بدلے القاعدہ کے خلاف جنگ میں مدد کرنے کی پیشکش کی گئی۔
انہوں نے 2001 میں برطانوی شہریت حاصل کی تھی، جس سے پاکستان میں قیاس آرائیاں شروع ہوئیں کہ انہیں برطانوی حکومت کی مدد کرنے پر انعام دیا گیا۔
برطانوی پارلیمنٹ میں بائیں بازو کے رکن پارلیمنٹ جارج گیلووے نے یہ جاننے کا مطالبہ کیا کہ الطاف حسین کو پاکستان میں ”ایج ویئر کے ایک صوفے سے دہشت گردی، کاروباری اداروں اور شہریوں سے بھتہ خوری کی مہم چلانے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے“۔
دو سابق برطانوی عہدیداروں کے مطابق الطاف حسین کی نیچرلائزیشن کی درخواست کو قبول کرنے کا فیصلہ امیگریشن کے عملے کی ایک پراسیسنگ غلطی تھی، نہ کہ اس کی افادیت کا عکاس۔ پھر بھی ان کا پاسپورٹ کبھی منسوخ نہیں کیا گیا، اور الطاف حسین آج بھی برطانیہ کے شہری ہیں۔
برطانیہ میں امیگریشن کے معاملات کو سنبھالنے والے ہوم آفس کے ساتھ ساتھ فارن، کامن ویلتھ اور ڈیولپمنٹ آفس نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ۔
فوج کی جانب سے ختم کرنے کی کوششوں کے باوجود ایم کیو ایم نے کراچی کے زیادہ تر حصے پر اپنی مضبوط گرفت برقرار رکھی، خاص طور پر جب جنرل پرویز مشرف نے 1999 کی بغاوت میں پاکستان کا کنٹرول سنبھالا۔
مشرف جو بذات خود ایک مہاجر تھے، انہوں نے ایم کیو ایم سے دستبرداری رویہ اختیار کیا۔ لیکن یہ الزامات کہ پارٹی بھتہ خوری اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہی، کبھی نہیں رکے اور چاہے ذریعہ کچھ بھی ہو، ایم کیو ایم کے فنڈز لندن جاتے رہے۔
برسوں کے دوران ایم کیو ایم نے کم از کم سات برطانوی جائیدادیں حاصل کیں، جن میں الطاف حسین کے لیے ایک عظیم الشان، سرخ اینٹوں کا گھر بھی شامل ہے، جو 2001 میں ایک ملین پاؤنڈ (1.2 ملین ڈالر) سے زیادہ میں خریدا گیا تھا۔
عمران فاروق کا قتل
16 ستمبر 2010 کو عمران فاروق نامی ایم کیو ایم کے ایک بانی رکن گھریلو سامان کا ایک تھیلا لے کر ایج ویئر ٹیوب اسٹیشن سے اپنی بیوی اور دو جوان بیٹوں کے پاس جانے کیلئے گھر کی طرف نکلے۔
عمران فاروق 1990 کی دہائی کے فوجی کریک ڈاؤن کے دوران روپوش ہو گئے تھے، جو سال 2000 سے عین پہلے لندن میں دوبارہ ظاہر ہوئے۔ ابتدا میں الطاف حسین نے عمران فاروق کو کیمروں کے سامنے مضبوطی سے گلے لگاتے ہوئے ایک طویل عرصے سے کھوئے ہوئے بھائی کی طرح خوش آمدید کہا۔
لیکن بعد میں پاکستان میں عدالتی دائروں میں الزام لگایا گیا کہ الطاف حسین نے عمران فاروق کو اپنی قیادت کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا۔ ان کے تعلقات جلد ہی مرجھا گئے اور عمران فاروق کو ایم کیو ایم سے معطل کر دیا گیا۔
دو پاکستانی اشخاص کاشف خان کامران اور محسن علی سید عمران فاروق پر نظر رکھے ہوئے تھے، اور سٹیشن سے نکلتے ہی ان کا پیچھا کرنے لگے۔
جب وہ اپنے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تھے تو محسن، عمران فاروق کے پاس پہنچا اور انہیں پکڑ لیا جبکہ کامران نے اب کے سر پر اینٹ ماری اور پھر ان کے سینے اور پیٹ پر وار کیا۔
دونوں افراد نے عمران فاروق کی لاش کو پھینکا اور سیدھے ہیتھرو ایئرپورٹ گئے، جہاں سے وہ سری لنکا جانے والی پرواز میں سوار ہوئے۔ راستے میں، کامران نے کراچی میں ایک مختصر کال کی کہ “ کام ہو گیا “، جس کے بارے میں سید نے پولیس کو بیان میں بتایا۔
عمران فاروق کا قتل سرخ لکیر تھی۔ بالآخر، برطانوی پولیس نے ایم کیو ایم سے منسلک کئی جائیدادوں پر چھاپہ مارا، جس میں لاکھوں پاؤنڈ نقدی برآمد ہوئی۔ پیسوں کے ڈھیروں کے علاوہ الطاف حسین کے گھر میں انہوں نے بندوقوں اور دیگر ہتھیاروں کی خریداری کی فہرست دریافت کی، جس کی قیمت ھیران کن طور پر ہندوستانی روپوں میں تھی۔
میٹروپولیٹن پولیس کے جاسوسوں کا خیال ہے کہ کچھ فنڈز ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (راء) جو ہندوستانی انٹیلی جنس سروس ہے اس سے آئے ہوں گے، الزامات پاکستان میں نشر ہوے تو مزید دھماکہ خیز ثابت ہوئے۔
(بھارتی وزیر اعظم کے دفتر نے بلومبرگ تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا)۔
اگر اس معاملے میں صداقت نہیں بھی تھی تو نقد رقم واضح طور پر غیر یقینی حقیقت تھی، اور پولیس نے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا آغاز کیا۔
مالی تحقیقات کا نتیجے میں کوئی سزا نہیں ہوئی، اور نہ ہی الطاف حسین پر عمران فاروق کی موت کے سلسلے میں کوئی الزام عائد کیا گیا۔
”متحدہ“ کا اختتام
لیکن پاکستان میں ہوا الطاف حسین کے خلاف چلنے لگی تھی۔ 2013 میں چین کے نئے رہنما شی جن پنگ نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی نقاب کشائی کی تھی، جو کہ پورے ایشیا اور اس سے باہر ایک ٹریلین ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کا منصوبہ ہے۔
چین کے روایتی اتحادی کے طور پر پاکستان کو 60 بلین ڈالر ملنا تھے۔ اس ساری رقم کو نتیجہ خیز طور پر خرچ کرنے کے لیے کراچی میں مزید استحکام کی ضرورت تھی اور اس کا مطلب تھا کہ ایم کیو ایم اب تجارتی امور اور کاروبار کو روکنے کے قابل نہیں رہے گی۔
الطاف حسین کے 2016 میں اپنے پیروکاروں کو ٹی وی اسٹوڈیوز پر حملہ کرنے کے مطالبات پر اکسانے کے بعد فوجی کریک ڈاؤن ہوا، جو پارٹی کیلئے سیاسی کینسر ثابت ہوا۔
کراچی میں پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں نے الطاف حسین کی قیادت سے دستبرداری کا اعلان کیا، لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ اب انچارج کون ہے، وہ ج اس وقت طوہاں موجود تھے، یا ایک ”مہاجر“ جو اب بھی عہدے کی وجہ سے وفاداروں کو حکم دیتا ہے۔
ایم کیو ایم (پاکستان) یا کراچی ونگ نے پارٹی کے برطانوی اثاثوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی، اور ایک مقدمے میں الزام لگایا کہ الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے لاکھوں پاؤنڈ فنڈز اپنی جیب میں ڈالے۔
لڑائی کے درمیان ایم کیو ایم نے 2018 کے قومی انتخابات میں صرف سات نشستیں حاصل کیں، جو اس کی اب تک کی سب سے کم تعداد ہے۔ الطاف حسین کے ان پٹ کے بغیر کراچی کا لاوارث ونگ عمران خان کی مخلوط حکومت میں داخل ہوا۔
اس دوران الطاف حسین برطانوی پولیس کے ریڈار پر واپس آگئے۔ جون 2019 میں افسران ان کے گھر میں گھسے، گرفتار کیا اور پھر ان پر ٹی وی اسٹیشن پر تشدد میں اس کے کردار کے لیے ”دہشت گردی کی حوصلہ افزائی“ کا الزام عائد کیا۔
بھیک مانگنے اور ہتھیار ڈالنے کے بجائے جیل میں مرنے کو ترجیح دوں گا
2021 کے موسم گرما میں ایک ابر آلود دوپہر کے آخر میں، حسین اپنی مل ہل پراپرٹی کے اندر گہرے رنگ کے سوٹ اور اپنے ٹریڈ مارک چشموں کے ساتھ ساتھیوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ انتظار کر رہے تھے۔
دورانِ انٹرویو الطاف حسین نے دلیلیں دیں کہ ان کی قانونی پریشانیاں فوج اور آئی ایس آئی سے بڑھ کر پوشیدہ کرداروں کی وجہ سے تھیں۔
انہوں نے کہا، ”پچھلے 30 سالوں سے، میں جلاوطنی میں ہوں، میں قیمت ادا کر رہا ہوں۔“
دہشت گردی کا الزام، پولیس کی تحقیقات، اور ان کے اجنبی ساتھیوں کی طرف سے مقدمات کے باوجود انہوں نے ان سب سے آخر تک لڑنے کا منصوبہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ میں بھیک مانگنے اور ہتھیار ڈالنے کے بجائے جیل میں مرنے کو ترجیح دوں گا۔
قتل، بھتہ خوری اور دیگر جرائم کے الزامات کے بارے میں پوچھے جانے پر جو ایم کیو ایم اور خود الطاف حسین سے منسوب ہیں، انہوں نے اپنے ساتھیوں سے قرآن مجید لانے کا مطالبہ کیا۔
ان میں سے دو نے مقدس کتاب پر قسم کھائی کہ الطاف حسین نے کبھی بھی کسی علاقے پر حملہ کرنے، لوٹ مار کرنے، لوٹنے، کسی کو قتل کرنے کا حکم دینے کے لیے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
الطاف حسین نے ہر الزام کو رد کرتے ہوئے وضاحت کی کہ منی لانڈرنگ اور ہندوستانی انٹیلی جنس سے فنڈنگ کی تجاویز ”سب کچرا“ تھیں، جبکہ پولیس کو ان کے گھر سے ملنے والی نقدی صرف حفاظت کے لیے تھی۔
خاص طور پر الطاف حسین نے عمران فاروق کے قتل کی ذمہ داری سے انکار کیا۔ قاتلوں کو بالآخر پاکستان میں گرفتار کر لیا گیا، جہاں انہوں نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے انہیں جرم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اگرچہ بعد میں انہوں نے ان بیانات کو مسترد کر دیا۔
اسلام آباد کی ایک عدالت نے 2020 میں فیصلہ دیا کہ وہ الطاف حسین کے حکم کے تحت کام کر رہے تھے۔
الطاف حسین نے سخت لہجے میں کہا، ”میں انہیں نہیں جانتا۔“
اس کے بجائے انہوں نے کہا کہ فاروق کی موت پاکستانی انٹیلی جنس کا کام تھا۔
ندیم نصرت پر حملہ
الطاف حسین کی تردید ایک اور واقعے کے چند ہی ہفتے بعد سامنے آئی جس میں انہیں پار کرنے کی کوشش میں ایک شخص نقصان اٹھا بیٹھا۔
الطاف حسین کے سابقہ معاون ندیم نصرت نے قیادت سے مایوس ہونے کے بعد ایک الگ مہاجر ایڈوکیسی گروپ قائم کیا اور 2017 میں امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔
پچھلے سال جولائی میں انہوں نے تقریر کرنے کے لیے ہیوسٹن کا سفر کیا۔ اپنے ہوٹل واپسی پر نصرت کے ڈرائیور نے اچانک بریک لگائی۔ ایک کالے رنگ کی اسپورٹس یوٹیلیٹی گاڑی رکی، اندر سے کسی نے گولیوں کے کئی راؤنڈ فائر کئے۔ نصرت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ آیا بندوق بردار چوک گیا، یا گولیاں صرف ایک وارننگ کے لیے تھیں۔
عدالت سے بریت
الطاف حسین کے دہشت گردی کے مقدمے کی سماعت جنوری میں جنوب مغربی لندن میں کنگسٹن-اوون-ٹیمز کراؤن کورٹ میں شروع ہوئی تھی۔ وہاں، استغاثہ نے جیوری کو وہ اشتعال انگیز تقریریں جو الطاف حسین نے ٹی وی سٹیشن پر حملوں سے پہلے کی تھیں، اور ایم کیو ایم کے ساتھیوں کے ساتھ ان کی مشتعل گفتگو کی نقلیں پیش کیں، جسے پارٹی فون کالز ریکارڈ کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے سسٹم کے ذریعے حاصل کی گئی تھی۔ اپنے اختتامی بیانات میں، پراسیکیوٹر مارک ہیووڈ نے دلیل دی کہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ الطاف حسین نے ”جو کچھ پوچھا اور حکم دیا وہ دہشت گردی کی کارروائیاں تھیں۔“
الطاف حسین کے وکیل روپرٹ بوورز نے جیوری سے کہا کہ وہ الطاف حسین کے الفاظ کو پاکستان کے پرتشدد سیاسی کلچر کے ساتھ جانچیں، اور اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ ان کے مؤکل نے اس کے لیے معذرت کر لی ہے۔
الطاف حسین نے کہا، ”ان کا تقریروں سے کسی بھی طرح کے سنگین تشدد کا ارادہ نہیں تھا۔“
تین دن تک غور و خوض کے بعد، ججوں کی اکثریت نے اتفاق کیا کہ الطاف حسین بے قصورہیں۔ وہ حامیوں کے چھوٹے ہجوم کو بوسے دیتے ہوئے عدالت سے خوشی کے عالم میں نکلے۔
الطاف حسین کا مستقبل اب بھی تاریک نظر آتا ہے۔ آپس کی لڑائی اور فوج کے دباؤ میں آکر وہ جماعت جو کبھی پاکستان کے معاشی دل پر حاوی تھی، بری طرح کمزور دکھائی دیتی ہے۔ لیکن ایم کیو ایم اس سے پہلے ہی پیچھے ہٹ چکی ہے۔
اپریل میں الطاف حسین کے لندن والے دھڑے نے عارضی طور پر کراچی میں اپنی کارروائیوں کو بحال کیا، انہوں پاکستان میں مقیم دو رہنماؤں کو اپنے ”ساتھی“ کے طور پر کام کرنے کے لیے نامزد کیا۔ ایک حامی نے پاکستانی عدالت میں ان کی تقاریر پر سے پابندی ہٹانے کی درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔
Comments are closed on this story.