روس کو ”لارڈ آف دی رِنگز“ سے کیا مسئلہ ہے، اپنا ورژن کیوں لکھا؟
روس کے یوکرین پر حملے کا موازنہ کئی مرتبہ مصنف جان رونلڈ ریوویل (جے آر آر) ٹولکیئن کی مشہور زمانہ کتاب ”لارڈ آف دی رِنگز ساگا“ سے کیا جا چکا ہے۔
بیانات میں روسی قوتوں کو اکثر ”orcs“ (اورکس) کے طور پر بیان کیا جاتا رہا ہے اور خود یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی کہہ چکے ہیں کہ ”یوکرین ایک پل نہیں، مغرب اور روس کے درمیان کوئی تکیہ نہیں، یورپ اور ایشیا کے درمیان بفر نہیں، اور نہ ہی اورکس اور ایلوس کے درمیان کوئی سرحد ہے“۔
ٹولکیئن کی اس افسانوی جادوئی داستان کا روس کے ساتھ تاریخی تعلق ہے، یہاں تک کہ روسی نقل میں ساؤرون اور اورکس کی فوج کو اچھے لوگ قرار دیا گیا تھا۔
”دی لارڈ آف دی رِنگز“ اور اس کی ذیلی کتاب ”دی ہوبٹ“ اب تک کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں سے ایک ہیں، 1930 کی دہائی کے آخر میں ”ہوبٹ“ کی پہلی بار اشاعت کے بعد سے اب تک 250 ملین سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس میں اس کا ترجمہ حکومتی اجازت سے 1992 میں شائع ہوا۔
اس سے پہلے، روسی عوام ایک عجیب و غریب سوویت یونین سے منظور شدہ ورژن پڑھتے رہے تھے، جس میں اس افسانوی کہانی میں موجود جادوئی مناظر کو سائنسی وضاحتوں سے تبدیل کردیا گیا تھا۔
سوویت مترجم زینیدا بوبیر کے 1966 کے ورژن میں پانچ سائنس دانوں نے ایک انگوٹھی دریافت کی تھی جو ایک قدیم ڈیٹا ذخیرہ کرنے والا آلہ (ڈیٹا اسٹوریج ڈیوائس) نکلا، لیکن اس ورژن کو کسی پبلشر کی تلاش میں ناکامی کا سامنا رہا۔
دوسرا ورژن، جس کی کوشش 1982 میں کی گئی، اس میں ”دی فیلوشپ آف دی رِنگ“ کا نام ”واچ مین“ رکھا گیا۔
روس میں اسے خوب پذیرائی ملی، لیکن اس کہانی کی دوسری اور تیسری جلد کی اشاعت کو اس وقت کے امریکی صدر رونلڈ ریگن کی 1983 کی تقریر کی وجہ سے روک دیا گیا جس میں انہوں نے ”یو ایس ایس آر“ کو ”شیطانی سلطنت“ کہا تھا۔
رونلڈ ریگن کے اس بیان نے سوویت قیادت کے اس یقین کو پختہ کر دیا کہ یہ کتاب سوویت یونین پر ایک درپردہ حملہ تھا۔
مترجم الیگزینڈر گرزبرگ نے کہتے ہیں، ”میرے ذہن میں کوئی سوویت مخالف خیالات نہیں تھے۔ ٹولکیئن کی تحریر میں بہت سے اشارے ہیں۔ ان میں سے ایک کافی ہے کہ خیر کی قوتیں مغرب میں واقع ہیں اور شر کی قوتیں مشرق سے آتی ہیں۔“
اس کے بعد 1991 میں ”دی لارڈ آف دی رِنگز“ کی ٹی وی کے لیے بنائی گئی ایک انتہائی مضحکہ خیز سیریز ”خرانیتلی“ نشر کی گئی۔
روسیوں کو اس شاندار کہانی کی بربادی کو ٹھیک کرنے کا اگلا موقع 1999 میں کیرل یسکوف کے آخری ”رنگ بیئرر“ کے ساتھ ملا، جو روسی قیادت کے بے وقوفانہ عقیدے کے گرد گھومتا ہے کہ اصل کتاب ان پر ایک حملہ تھا۔
یسکوف لکھتے ہیں کہ ”موسمیاتی تبدیلیوں سے مڈل ارتھ کی تباہی کے خطرے کے پیش نظر، مورڈور کا بادشاہ ساؤرون VIII، ایک ترقی یافتہ صنعتی معاشرہ بنانے کے لیے نازگل نامی سائنس دانوں کی ایک ٹیم کی قیادت کرتا ہے۔“
لیکن جنگجو جادوگر گینڈالف سمندر کے اس پار سے نسل پرست یلوس کے ساتھ اتحاد میں ”ہڈیوں کے سر والے جارح مغرب“ کی قیادت کرتے ہیں تاکہ وہ ”مورڈورین مسئلے کا حتمی حل“ فراہ کرسکیں جو ہٹلر کی پالیسیوں کا واضح حوالہ ہے۔
یسکوف کی کتاب میں ”اچھے لوگ“ ہار جاتے ہیں۔
Comments are closed on this story.