Aaj News

جمعرات, نومبر 21, 2024  
18 Jumada Al-Awwal 1446  

آرٹسٹک ملینرز گینگ ریپ: الزامات لگانے والے بلیک میلرز ہیں، پولیس

دعویٰ کیا جارہا ہے کہ واقعہ چند روز قبل پیش آیا تھا، لڑکی کی لاش کورنگی کے ایک پارک سے ملی۔
اپ ڈیٹ 08 ستمبر 2022 09:34am
پولیس افسران 3 ستمبر کو آرٹسٹک ملینئیرز پلانٹ میں ایک خاتون سے بات کر رہے ہیں۔ تصویر بشکریہ آرٹسٹک ملینئیرز
پولیس افسران 3 ستمبر کو آرٹسٹک ملینئیرز پلانٹ میں ایک خاتون سے بات کر رہے ہیں۔ تصویر بشکریہ آرٹسٹک ملینئیرز

پاکستان کے معاشی حب کراچی کے کورنگی انڈسٹریل ایریا میں واقع ڈینم کے ایک بڑے صنعتی ایکسپورٹ یونٹ “آرٹسٹک ملینرز” میں لڑکی کے ساتھ 20 سے 22 افراد کی اجتماعی زیادتی کی خبروں نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے، تاہم پولیس کی جانب سے ایسے کسی بھی واقعے کی تردید کی گئی ہے۔

آرٹسٹک ملینرز کا کہنا ہے کہ اجتماعی عصمت دری کے الزامات کمپنی کو بدنام کرنے کی ایک “منظم مہم” ہے۔

سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے کی جانے والی ٹوئٹر ٹاپ ٹرینڈز میں شامل تقریباً ایک جیسے مواد والی لاتعداد پوسٹس میں موجود تفصیلات کے مطابق مذکورہ کمپنی میں کام کرنے والی لڑکی کو اوور ٹائم کے لیے روکا گیا، اسے چائے میں کوئی چیز ملا کر پلائی گئی، ہوش وحواس سے بے خبر ہوجانے پر اس کے ساتھ ہیومن ریسورس (ایچ آر) ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے افسران سمیت کل 20 سے 22 افراد نے اجتماعی عصمت دری کی۔

پوسٹس کے ساتھ #ARTISTICMILLINERSRAPECASE ہیش ٹیگ تھا۔

اسی دوران سوشل میڈیا پر کچھ صارفین نے چند روز قبل کورنگی کے علاقے میں ایک پارک سے ایک لاش کی برآمدگی کا حوالہ دیا۔

پوسٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ واقعہ چند روز قبل پیش آیا تھا، زیادتی کے بعد لڑکی حالت خراب ہونے پر چل بسی، جس کی لاش کورنگی کے ایک پارک سے ملی۔

ان کا دعویٰ تھا کہ یہ وہی لڑکی تھی جس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی اور قتل کیا گیا تھا۔

واقعے کی تردید

دوسری جانب ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ایسٹ مقدس حیدر نے ایسا کوئی بھی واقعہ پیش آنے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اطلاعات سوشل میڈیا پر زیرِ گردش تھیں، تحقیقات کرنے پر ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔ کمپنی انتظامیہ کی جانب سے پولیس کو بتایا گیا ہے کہ یہ سب انہیں بدنام کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔

پانچ ستمبر کو سب ڈویژنل پولیس آفس کورنگی کی جانب سے جاری خط میں کہا گیا کہ انکوائری میں ویب چینل دھوم پلس کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کے حق میں کوئی ثبوت نہیں مل سکے ہیں، مذکورہ الزامات پریس رپورٹر اور سندھ سجاگ لیبر فیڈرین کے ممبر ساگر بلیدی کی جانب سے محض کمپنی کی ساکھ کو خراب کرنے کیلئے لگائے گئے ہیں، جو فیس بک پر دھوم پلس نامی ویب چینل چلاتا ہے۔

کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کی جانب سے کمپنی کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ مقامی پولیس سمیت متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تصدیق کے بعد ثابت ہوا کہ دھوم پلس ویب چینل ایک جعلی اور غیر رجسٹرڈ چینل ہے، ساگر بلیدی ایک بلیک میلر ہے جس نے اپنے غیر قانونی مطالبات منوانے کیلئے جعلی پروپیگنڈا کیا، جبکہ سندھ سجاگ لیبر فیڈریشن بھی لیبر ڈیویژن سے غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی تنظیم ہے۔

کاٹی کا خط تین ستمبر کا ہے، اسی تاریخ کو یہ اطلاع ملی تھی کہ کورنگی کے ایک پارک میں ایک لاش ملی ہے، جس کا تعلق بعد میں ٹیکسٹائل کمپنی کے یونٹ میں مبینہ گینگ ریپ سے جوڑا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر برائے قانون مرتضیٰ وہاب سے بھی آج کراچی میں ہونے والی پریس کانفرنس میں اس حوالے سے سوال کیا گیا، جس پر ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر اس واقعے کا کوئی ثبوت نہیں کہ متاثرہ بچی کا نام کیا ہے، اگر خدانخواستہ کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی تواس کا نام کیا ہے، نہ ہی اس کی ڈیڈ باڈی پھینکنے کے شواہد موجود ہیں، صبح متعلقہ حکام سے بھی بات ہوئی تو انہوں نے بھی یہی کہا، میں نے کمپنی کی جانب سے ایسے کسی بھی واقعے کی تردید بھی سوشل میڈیا پر دیکھی۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ اگر ایسا ہوا ہے تو ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، لیکن پہلے یہ ثبوت تو ہو کہ ایسا ہوا ہے۔ حیرت ہے کہ جو چیز کسی صحافی، پولیس، ضلعی انتظامیہ کو پتہ نہیں چلی اسے کسی ٹوئٹر یا فیس بک اکاؤنٹ سے پھیلا دیا گیا۔

ویلفئیر ادارے چھیپا کا کہنا ہے کہ لڑکی کی لاش کئی دن سے چھیپا میں ہے، ورثاء میں سے ابھی تک کوئی نہیں آیا ہے، اگر کوئی فیملی ممبر آتا ہے تو شاید کوئی پیش رفت ہوسکے کہ وہ پوسٹ مارٹم چاہتے ہیں یا نہیں۔

یکم ستمبر کو چھیپا کی جانب سے جاری ہونے بییان میں کہا گیا تھا کہ کورنگی 04 نمبر غوث پاک روڈ کے قریب گراﺅنڈ سے ایک خاتون کی لاش برآمد ہوئی ہے جس کی وجہ موت نامعلوم ہے۔

لاش کو چھیپا ایمبولینس کے ذریعے جناح اسپتال منتقل کیا گیا، جس کی شناخت تاحال نہیں ہوسکی ہے۔ خاتون کی عمر تقریباً 35 سال تھی۔

اسی دوران ایک اور ویڈیو بھی گردش کرنا شروع ہوئی، جس میں ایک خاتون نے دعویٰ کیا کہ وہ اسی کمپنی میں ملازمہ تھی اور ماضی میں اسے بھی ہراساں کیا گیا تھا، خاتون نے ویڈیو میں کئی نام لیے۔

ایک اور الزام؟

خاتون کا کہنا تھا کہ میں اے جی آئی 13 میں کام کرتی ہوں، مجھے کمپنی میں 9 سال ہوچکے ہیں، میرے ساتھ پہلے اسی قسم کا مسئلہ ہوا تھا جس پر میں نے آواز اٹھائی تو مجھے کہا گیا کہ اب ایسا نہیں ہوگا آپ کو مزید پریشان نہیں کریں گے، لیکن اب نیا مینیجر آیا ہے۔

خاتون نے ویڈیو میں الزام لگایا کہ سعید، آصف، جمشید اور نوید نامی اشخاس انہیں بلاوجہ پریشان کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں اگر آپ باہر ہم سے نہیں ملیں تو آپ کو کام سے نکال دیں گے۔ میں نے بادشاہ کرنل کو شکایت کی تو اس نے الٹا مجھے ڈانٹا کہ میں نے بدتمیزی کی ہے۔

تاہم آرٹسٹک ملینرز کا کہنا ہے کہ آرٹسٹک گارمنٹ انڈسٹری (اے جی آئی) ایک علیحدہ گروپ ہے اور دونوں گروپس کے مالکان بھائی ہیں۔ جبکہ مذکورہ ویڈیو بھی ایک سال پرانی ہے۔

karachi

korangi

Artistic Millionaire Rape Case