Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

سندھ میں خشک سالی کے بعد سیلاب سے زراعت تباہ

موسمیاتی تبدیلیاں کاشتکاری کو دن بہ دن مزید مشکل بنا رہی ہیں
اپ ڈیٹ 03 ستمبر 2022 06:59pm
تصویر بشکریہ ذوالفقار کنبھر
تصویر بشکریہ ذوالفقار کنبھر

پاکستان بھرمیں مون سون کی طوفانی بارشوں سے موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل میں بےانتہا اضافہ ہورہا ہے۔

دی تھرڈ پول میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ ملک کے دوسرے سب سے زیادہ آبادی والے اور زراعت پرانحصار کرنے والے صوبے سندھ میں گندم کی فصل میں تقریباً 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ تباہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درپیش مسائل بڑھ رہے ہیں، اس لیے زراعت میں موافقتی اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔

رپورٹ کے مطابق ماہ جولائی میں سندھ اور بلوچستان میں 30 سالہ اوسط سے 500 فیصد زیادہ بارش ہوئی۔ 21 اگست کو جاری کیے جانے والے سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ انسانی جانوں، مویشیوں، مکانات اور کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا، زراعت سب سے زیادہ متاثرہونے والے شعبوں میں سے ایک ہے۔

 تصویر بشکریہ ذوالفقار کنبھر
تصویر بشکریہ ذوالفقار کنبھر

صوبائی حکومت کے ایگریکلچرایکسٹینشن سندھ ڈیپارٹمنٹ کے ٹیکنیکل ڈائریکٹرعلی نواز چنر نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ، “ سندھ میں جاری مون سون کی وجہ سے اب تک کپاس کی فصل میں 45 فیصد، کھجورمیں 85 فیصد اورچاول میں 31 فیصد نقصان ہوا۔ زیادہ پانی استعمال کرنے والی گنے کی کھڑی فصل کو بھی سیلاب کی وجہ سے 7 فیصد تک نقصان پہنچا جو اس تباہی کی شدّت کو ظاہر کرتی ہے جس کا ہم سامنا کررہے ہیں“۔

انہوں نے کہا کہ کھجور کےعلاوہ یہ سب کھڑی فصلیں ہیں، اس لئے کٹائی کے موسم کے اختتام تک نقصان میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ 48 ملین آبادی والے سندھ کا ملک کی کل زرعی پیداوارمیں تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہے۔

علی نواز چنر کے مطابق رواں سال تباہ کن سیلاب، صوبے میں زراعت کو لاحق مسائل کا محض ایک حصہ ہیں۔ اس سال سندھ نے زوال پذیرزرعی پیداوارمیں ایک نئے پیٹرن کا مشاہدہ کیا، فصلوں کو ایک ہی سال میں بالترتیب خشک سالی اورسیلاب جیسے شدید موسمی واقعات کا سامنا کرنا پڑاجس نے سندھ کی زراعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

خشک سالی اور سیلاب سے سندھ کی زراعت تباہ

رواں سال مئی میں سندھ چیمبرآف ایگریکلچرکی جانب سے صوبے کو آفت زدہ قراردینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ پانی کی کمی نے زرعی زمین کو بنجر کر دیا ہے۔ علی نوازچنر نے اس حوالے سے کہا کہ، “سندھ کی زرعی معیشت ہونے کے باعث یہ نقصان پاکستان میں کاشتکاری کے مستقبل کے لئے تشویشناک ہے اور قومی غذائی تحفظ کےلئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے “۔

قومی غذائی تحفظ کے لئے خطرے کی گھنٹی

سندھ ایگریکلچر ایکسٹینشن ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 2022 کے آغاز میں سرما کی فصلوں کی بوائی کے دوران صوبے میں پانی کی 70 فیصد کمی تھی۔ اس سے فصلوں کو اگانے کے لئے استعمال کیا جانے والا رقبہ سکڑا کیونکہ جس رقبے پر گندم اور کپاس کی کاشت ہوتی ہے اس میں کمی کا تعلق بوائی کے دوران پانی کی کمی سے ہے۔ یہ نقصان پاکستان میں کاشتکاری کے مستقبل کے لئے تشویشناک اورقومی غذائی تحفظ کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔

کاشتکاری کے رقبے میں تبدیلی

اکنامک سروے پاکستان کے مطابق سال 2021 سے 2022 کے مالی سال میں پاکستان کی مجموعی گھریلو پیداوارمیں زراعت کا حصّہ 22.7 فیصد رہا، جبکہ اس سے پچھلے سال یہ 23 فیصد تھا۔ پاکستان کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ گزشتہ برسوں کے دوران مسلسل کم ہوتا رہا ہے، رواں سال کمی ممکنہ طور پر پیداوار میں شدید کمی کی شکل میں ظاہر ہوگی۔

سندھ کے اے آرسی ٹنڈوجام کے ڈائریکٹر لیاقت علی بھٹو نے کہا کہ جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ غیرتسلی بخش ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ، “ 1947 میں پاکستان کی آزادی کے وقت قومی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 50 فیصد سے زیادہ تھا۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم قومی معیشت میں زراعت کا ان پٹ برقرار رکھنے میں ناکام رہے، آبادی میں اضافہ اورموسمیاتی تبدیلی ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ ہمیں جنگی بنیادوں پر موافقت پذیر اقدامات کرتے ہوئے اپنی زراعت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

خواتین پراثرات

سندھ ناری پورہیت کونسل کی چیئرپرسن رفیعہ گلانی ضلع سانگھڑ میں رہتی ہیں او خواتین کارکنوں کے حقوق کے لئے مہم چلانے والی اور ایک سرگرم کارکن ہیں، انہوں نے کہا کہ مون سون کی جاری بارشوں کا سب سے بڑا نقصان خواتین کو ہے۔ رواں سال مون سون نے کسانوں کواور خصوصاًخواتین کو بے روزگار کر دیا ہے۔

 تصویر بشکریہ ذوالفقار کنبھر
تصویر بشکریہ ذوالفقار کنبھر

تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے رفیعہ نے مزید کہا کہ زرعی ملازمتوں کے لئے طویل فاصلے کا سفرطے کرنے والے کسان ان مواقعوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ دیہی علاقوں میں خواتین کی نقل و حرکت پہلے ہی مشکل ہے اورسیلاب زدہ سڑکیں موجودہ رکاوٹوں میں اضافہ کرتی ہیں، جس کی وجہ سے خواتین کو مردوں کے مقابلے میں اپنی ملازمتوں سے محروم ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔

موافقت پذیر اقدامات کی ضرورت

مہران یونیورسٹی کے ریسرچ جرنل آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں شائع ہونے والی 2020 کی تحقیق کے مطابق اگر پاکستان زراعت میں موافقت کے اقدامات پر عمل درآمد نہیں کرتا تو موسمیاتی تبدیلی سے جی ڈی پی میں اس شعبے کا حصہ تقریباً 5 فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔ فصل کی پیداوار بڑھانے کے لئے زرعی ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری سے جی ڈی پی میں تقریباً 17 فیصد زرعی ویلیو ایڈڈ اضافہ ہونے کا امکان ہے جبکہ نہری اور آبی گزرگاہوں کی کارکردگی میں بہتری کے لئے سرمایہ کاری اس میں 9 فیصد اضافہ کرے گی۔

حیدرآباد کے ایک کسان اورسندھ چیمبر آف ایگریکلچر کے نمائندے غلام سرورپنہور نے بتایا کہ ان کا تجربہ اس مطالعے کی تائید کرتا ہے۔ پنہور کے مطابق، “اگر پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنا چاہتا ہے تو زراعت میں موافقت پذیر اقدامات کرنے ہوں گے جن میں کاشتکاری کے نظام میں ترمیم کرنا، کسانوں کو تربیت اور معیاری بیج فراہم کرنا، عوامی ترقی اور تحقیقی فنڈ میں اضافہ کرنا شامل ہے۔

ذوالفقار کنبھر کا یہ مضمون اصل میں دی تھرڈ پول پر شائع ہوا تھا جسے ان کی اجازت سے دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔

Rain

Pakistan Flood

Floods in Pakistan