Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

کندھ کوٹ: انڈس ہائی وے پر سیلاب متاثرین کی خیمہ بستی قائم

کیمپ میں موجود متاثرین گاؤں حضور بخش سبزوئی کے رہائشی ہیں جو بارشوں و سیلاب کے نذر ہوگیا۔
اپ ڈیٹ 01 ستمبر 2022 03:09pm

کندھ کوٹ: کندھ کوٹ میں انڈس ہائی وے وین اسٹینڈ کے قریب بارش و سیلاب متاثرین نے خیمہ بستی قائم کرلی، جس میں ایک ہی خاندان کے 60 کیمپس موجود ہیں۔

اس کیمپ میں موجود متاثرین گاؤں “حضور بخش سبزوئی” کے رہائشی ہیں جو بارشوں و سیلاب کے نذر ہوگیا ، کئی مکان گر چکے، ہزاروں ایکڑ پر مشتمل چاولوں کی فصلیں بھی تباہ ہوگئی ہیں۔

کیمپ میں موجود 70 سالہ شخص زر خان ولدیت وزیر خان سبزوئی نے آج نیوز کو بتایا کہ ہم دس روز سے یہاں کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہے ہیں ، ہمارا خاندان خوشحال تھا زرعی زمینیں آباد تھیں، مگر اچانک دس روز تک ہونے والی بارش نے تباہی مچادی جس سے ہمارا گاؤں حضور بخش سبزوئی مکمل ڈوب گیا۔

انہوں نے اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے خاندان کے 30 افراد جن میں خواتین اور بچوں بھی شامل ہیں یہاں پر آکر بیٹھ گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس مویشیوں کی تعداد دس ہے، جنہیں بڑی مشکلوں سے باہر نکال کر لائے تھے، دس روز گزر گئے ہیں مگر انتظامیہ نے تاحال مدد نہیں کی ہے۔

کیمپ میں موجود ایک اور متاثرہ شخص کمال خان سبزوئی نے بتایا کہ میں بھی اپنے گاؤں حضور بخش سبزوئی سے تعلق رکھتا ہوں، میرے نو بچے ہیں، بارش سے میرا گھر ڈوب گیا، تو ہم وہاں سے اپنے بچوں اور آٹھ مویشیوں کو نکال کر یہاں آکر بیٹھ گئے ہیں۔

کمال خان نے مزید بتایا کہ ہمارا کروڑوں کا نقصان ہوا ہے، مگر یہ نقصان خدا کے طرف سے منظور تھا، دکھ اس بات کا ہے کہ انتظامیہ نے ایک وقت کا کھانا بھی نہیں دیا، ہم یہاں تین جھونپڑی نما خیموں کی طرح چھت بنا کر پناہ گزیر ہیں، دھوپ اور گرمی بارش کے بعد زیادہ ہوتی ہے، کھانے میں سوکھی روٹی کو دو دو وقت تک کھاتے ہیں، بیت الخلاء نہیں ہے تو قریب میدان میں رفع حاجت کرتے ہیں ، مچھر دانیاں نہیں ہیں تو ساری رات مچھروں کا سامنا رہتا ہے، بدامنی کی وجہ سے مویشیوں کی چوری کا خوف رہتا ہے اور رات بھر چوکیداری بھی کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پینے کا صاف پانی نہیں ہے، مجبوری میں بچے بارش اور سیوریج کے جمع شدہ پانی سے پیاس بجھاتے ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ ہمارا قصور کیا ہے، نہ انتظامیہ ہمیں انسان سمجھتی ہے اور نہ ہی کسی کو احساس ہوتا ہے، نہ خیمے ملے نہ امداد ملی، ہمیں صرف صاف پانی چاہیئے ورنہ ہمارے بچے آنکھوں کے سامنے مر جائیں گے۔

غلام قادر ولدیت نیک محمد سبزوئی نے بتایا کہ میرے پانچ مویشی ہلاک ہوگئے ہیں، ایک جانور کم سے کم دو لاکھ روپے کا تھا، میں نے پانچ بچوں سمیت مویشیوں کو بارشی پانی سے بڑی مشکل سے نکالا پھر یہاں آکر بیٹھ گیا، ہمارے کیمپ میں خواتین اور بچوں کا اہم مسئلہ بیت الخلاء اور پینے کا پانی ہے، سارا دن عورتیں بے چاری کھلے میدان میں رفع حاجت کیلئے جانے کیلئے رات کا انتظار کرتی ہیں، اس وجہ سے نسوانی بیماریاں بھی جنم لے رہی ہیں، بچے بے چارے سارا دن بھوکے پیٹ گندا گدلہ پانی پی کر بیمار ہورہے ہیں، ہم جائیں تو جائیں کہاں؟

فیض محمد ولد نصیر خان سبزوئی کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، ہمارے بچوں اور جانوروں کا علاج کرایا جائے، طبی کیمپ قائم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ میرا خاندان بارہ افراد پر مشتمل ہے۔ جیئند، دل مراد، نور الدین سمیت ایک ہی کنبے میں سو سے زائد افراد تھے جن کا اہم مسئلہ تھا کہ کسی طرح موذی بیماریوں کا معالجہ، کھانے کے لئے ایک وقت کا کھانا ، خیموں اور پینے کا صاف پانی میسر ہو۔

مذکورہ سبزوئی قبیلے کے افراد بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب سے قبل خوشحال ہوا کرتے تھے، دس روز طوفانی بارشوں نے سب کچھ تہس نہس کردیا، کئی سفید پوش افراد عزت و آبرو کو سڑکوں پر لے کر زندگی اور موت کی کشمکش سے دن گزار رہے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر منورعلی مٹھیانی کا موقف

ڈپٹی کمشنر منور علی مٹھیانی کے مطابق ضلع بھر کیلئے سندھ حکومت کی جانب سے 15 ہزار راشن کے بیگز حاصل ہوئے، جو ہم 22 کیمپس میں موجود متاثرین کو فراہم کرچکے ہیں، جبکہ طلب 50 ہزار راشن بیگز کی ہے، خیموں کی ڈیمانڈ ایک لاکھ تک ہے جبکہ ہمیں موصول صرف 20 ہزار ہوئے ہیں جو کہ ضلع کی تین تحصیلوں کشمور، کندھ کوٹ اور تنگوانی میں تقسیم کئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس ہفتے تک خیمے اور راشن کے بیگز موصول ہوں تو ہم لسٹیں بنا کر مذکورہ متاثرین کو فراہم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ طبی سہولت کی فراہمی کے لئے میڈیکل ٹیمیں روانہ کردی ہیں جو موذی امراض میں مبتلا بچوں، خواتین اور مردوں کا علاج کریں گی۔

دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہونے لگی

ایک طرف بارشوں کی تباہی سے لوگ پریشان ہیں تو دوسری جانب دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہوتی جارہی ہے، اس وقت گڈو بیراج میں پانی کی سطح 5 لاکھ 18 ہزار 706 کیوسک ریکارڈ کی گئی ہے ، بندوں کی صورت حال ابتر ہونے سے لوگوں میں خوف و حراس پھیل رہا ہے۔

اس حوالے سے سندھ حکومت کو چاہیئے کہ سیلابی صورت حال کنٹرول کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے اور بارش سے متاثرین کو خوراک، طبی سہولیات فوری فراہم کی جائے تاکہ لوگ اس مشکل وقت کا سامنا کرسکیں۔

Sindh floods

Flood victims

Madad Karo

Kandhkot