سیاست کے “بدلتے بیانیے”
اقتدار کے ایوانوں میں تبدیلی ’‘بیانیوں’’میں بھی تبدیلی لے آتی ہے۔ 2017ء میں جب نوازشریف کو وزارتِ عظمیٰ کی کرسی سے اتارا گیا تو انہوں نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ شروع کردیا۔ پھر ن لیگ اور پی ڈی ایم کے رہنما جلسوں اورریلیو ں میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف گرجتے برستے رہے اور یہی بیانیہ عوام میں بے پناہ مقبول ہوا۔
پی ٹی آئی دورِ حکومت میں ہونے والے 12 ضمنی انتخابات میں سے11 نشستیں اپوزیشن کی جھولی میں آگرنا اسی بات کی دلیل تھی کہ اس کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ن لیگ نے ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا،جہاں اسٹیبلشمنٹ کو ہدف تنقید نہ بنایا ہو۔ کچھ عرصے قبل نوازشریف نے اسٹیبلشمنٹ پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ انہوں نے قوم پر عمران خان کو مسلط کیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ گوجرانوالہ جلسے میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار حاضر سروس آرمی چیف اورحاضر سروس ایجنسی سربراہ کا نام بھی لے لیا۔
اسی طرح راتوں رات صورتحال بدلنے سے وہ عمران خان، جوایک لمبے عرصے تک اسٹیبلشمنٹ کے قصیدے پڑھتے اور ان کے فیصلوں کی بھرپورتائید و حمایت کرتے تھے آج انہی پرتنقید شروع کردی اور نوازشریف کا مزاحمتی بیانیہ عمران خان نے اپنالیا۔ نوازشریف نے ‘‘خلائی مخلوق’’ کا نام دیا تھا، عمران خان نے بطورِطنز ان کے لیے ‘‘نیوٹرل’’ لفظ متعارف کرادیا۔ جلد ہی محسوس ہوا کہ مصلحت اورمفاد پرستی کی سیاست سیاسی جماعتوں کے اصول اورنظریات پر حاوی ہو جاتی ہے اور دوستوں کو دشمن اور دشمنوں کو دوستی کی صف میں آتے وقت نہیں لگتا ۔
جب بھی سیاست میں کسی کی ‘‘کرسی’’ خطرے میں آتی ہے تو وہ ‘‘سیاست نہیں ریاست بچائیے’’ کا راگ الاپنے لگ جاتا ہے۔ اور جیسے ہی معاملات ٹھیک ہوتے ہیں تو اپنے مفادات کے حصول کے لیے سرگرم ہوجاتے ہیں ۔ یعنی ‘‘وصولی’’ کے بعد اصول غائب ہوجاتے ہیں۔
آج کل سابق وزیراعظم عمران خان اصول پسند سیاست بنے ہوئے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے چند ماہ پہلے نوازشریف تھے۔ ایک طرف عمران خان کے بدلتے بیانیے، قول و فعل کے تضاد اوردہرے سیاسی معیارات ہیں۔ جن بنیادوں پر عمران خان اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کرتے ہیں خود اپنے لیے انہی کاموں کو درست سمجھتے ہیں۔ جیسے سیاسی جوڑ توڑ،موروثی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت وغیرہ۔
عمران خان کی سپورٹ کی وجہ سے چار سال فوج کو دیگر جماعتوں کی مخالفت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اب ایک تاثریہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف سے ناراض ہے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی ان پر تنقید کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ جب اتحادی حکومت نے عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے میدان سے باہر نکالا اور حالات قابو سے باہر ہوئے تو کہا جا رہا تھا کہ اتحادی ‘‘ٹریپ’’ ہوگئے ہیں۔ ایک دلیلیہ بھی دی جاتی ہے کہ ٹریپ اتحادی جماعتیں نہیں، بلکہ اسٹیبلشمنٹ اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے ہوئی ہے۔ لیکن اب بظاہرلگتا ہے کہ اتحادی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ مل رہی ہے۔ دیکھنایہ ہے کہ یہ سپورٹ حکومت کو کب تک اور کتنا فائدہ دے گی؟۔
جس طرح کسی کی خواہش پرنواز شریف کو نا اہل کرایا گیا، اسی طرح اب عمران خان پر بھی نا اہلی کی تلوارلٹک رہی ہے اورکہا جا رہا ہے کل تک جو این آر او لینے کا الزام لگاتے تھے آج وہ این آر او کے لیے ‘‘کسی کے در’’ کے چکر لگا رہے ہیں۔ بلاک نمبرز شاید اسی وجہ سے ‘‘ان بلاک’’ ہوگئے ہیں۔ عمران خان کے دورِ اقتدارمیں پی ڈی ایم ’’سلیکٹڈ ’بیانیے کا سہارا لے کر سڑکوں پر تھی اور نئے انتخابات کا مطالبہ کرتی تھی لیکن ان کا یہ مطالبہ نہیں مانا گیا جس کے بعد مخصوص منصوبہ بندی کے تحت عمران خان کو اقتدار کے ایوان سے باہر کیا گیا۔ وزیراعظم کی کرسی سے اترتے ہی عمران خان ’‘امپورٹڈ حکومت’’کے بیانیے کے ساتھ عوام میں آئے اورنئے انتخابات کا مطالبہ کرنے لگے ، جس کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومت ہاتھ میں آنے کے بعد وہ دستبردار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ کیونکہ اتحادی حکومت کواب بظاہر ایک ‘‘سہارا’’ ملتا نظر آرہا ہے۔
کوئی بعید نہیں خان صاحب کسی بھی وقت ایک ’‘نیا بیانیہ’’سامنے لے آئیں کیونکہ انہوں نے14اگست کو ایک جلسے کی کال دی ہے۔ دیکھنا ہے کہ وہ اب کس بیانیے کا سہارا لیں گے۔ یاکیا وہ حکومت کو ‘‘نیا الٹی میٹم’’ دینے آرہے ہیں؟ کیونکہ بہر حال وہ ایک مقبول عوامی لیڈر ہیں اور ان کے سیاسی پیروکاران کی ہر بات پر یقین رکھتے ہیں۔
Comments are closed on this story.