چین میں نئے وائرس کے درجنوں کیسز رپورٹ، تحقیقات شروع
محققین نے چین میں ایک نئے وائرس کا سراغ لگانا شروع کر دیا ہے، جس کے اب تک درجنوں کیسز ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔
نوول لانگیا ہینیپا وائرس (لے وی) “Langya henipavirus (LayV) “ پہلی بار چین کے شمال مشرقی صوبوں شانڈونگ اور ہینان میں 2018 کے آخر میں دریافت کیا گیا تھا، لیکن باضابطہ طور پر سائنس دانوں نے گزشتہ ہفتے اس کی شناخت کی۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا اور تائیوان کی ہیلتھ اتھارٹی اب اس کے پھیلاؤ کی نگرانی کر رہی ہے۔
محققین نے جنگلی جانوروں کا ٹیسٹ کیا اور 262 چھچھوندروں میں سے ایک چوتھائی سے زیادہ میں لے وی وائرل رائبو نیوکلیک ایسڈ (آر این اے) پایا گیا، یہ وائرس 2 فیصد گھریلو بکریوں اور 5 فیصد کتوں میں بھی پایا گیا۔
وائرس کی ابتدائی تحقیقات کا خاکہ چین، سنگاپور اور آسٹریلیا کے سائنس دانوں کی جانب سے گزشتہ ہفتے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن (NEJM) میں شائع کردہ لیٹرز میں بیان کیا گیا تھا۔
وائرس کی وجہ سے لوگوں میں بخار، تھکاوٹ، کھانسی، بھوک میں کمی اور پٹھوں میں درد کی شاکایت سامنے آئی ہیں۔۔
این ای جے ایم پیپر کے شریک مصنف اور ڈیوک این یو ایس میڈیکل اسکول کے پروفیسر وانگ لنفا نے چینی سرکاری خبر رساں ادارے گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ لے وی سے آج تک کوئی موت نہیں ہوئی ۔
ان کا کہنا تھا کہ لے وی کے کیسز اب تک مہلک یا بہت سنگین ثابت نہیں ہوئے ہیں ، اس لیے خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ ابھی تک واضح نہیں کہ آیا یہ وائرس لوگوں سے ایک دوسرے کو منتقل ہو سکتا ہے۔ 35 کیسز میں سے زیادہ تر کسانوں میں پائے گئے، اور دیگر متاثرہ افراد میں فیکٹری ورکرز بھی شامل تھے۔
محققین کے مطابق خاندان کے 15 قریبی افراد کے ساتھ 9 مریضوں کے رابطے سے پتہ چلا کہ کوئی بھی قریبی رابطہ لے وی ٹرانسمیشن کا ذریعہ نہیں بنا، لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے نمونے کا سائز انسان سے انسان میں منتقلی کی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے بہت چھوٹا تھا۔
سائنس دانوں نے لے وی جینوم کو ترتیب دے کرتعین کیا کہ یہ ہینیپا وائرس تھا، زونوٹک آر این اے وائرس کا ایک زمرہ جس میں ہینڈرا وائرس اور نیپاہ وائرس بھی شامل ہیں۔
ہینڈرا وائرس گھوڑوں اور انسانوں کو متاثر کرتا ہے اور اس کی ابتدا آسٹریلیا سے ہوئی ہے، جبکہ نیپاہ وائرس نے جنوب مشرقی ایشیا میں بیماریاں پھیلائی ہیں۔
لے وی کا سب سے گہرا تعلق موجیانگ وائرس سے ہے، جو جنوبی چین میں دریافت ہوا تھا۔
تائیوان سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی) نے اتوار کو اعلان کیا کہ وہ وائرس کے لیے جینوم کی ترتیب اور نگرانی کے اقدامات کو نافذ کرے گا۔
تائیوان سی ڈی سی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل چوانگ جین ہسیانگ نے ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ ایجنسی ٹرانسمیشن کے راستوں پر تحقیق کر رہی ہے اور کونسل آف ایگریکلچر کے ساتھ مل کر تائیوان کی نسلوں میں اسی طرح کی بیماریوں کی تحقیقات کرے گی۔
متعدی امراض کے ماہرین نے طویل عرصے سے متنبہ کر رکھا ہےکہ موسمیاتی بحران اور فطرت کی تباہی سے اس وائرس کا جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
Comments are closed on this story.