بابا وانگا کی پیش گوئی، 2022 کی اگلی بڑی تباہی کونسی ہوگی؟
مشہور آنجہانی نابینا پیش گو خاتون “بابا وانگا” نے 2022 کے لیے کچھ خوفناک پیش گوئیاں کی تھیں جن میں سے کچھ سچ ثابت ہوچکی ہیں۔
بلقان کی “نوسٹراڈیمس” کے نام سے مشہور بلغاریہ کی اس نابینا خاتون کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے نیویارک کے نائن الیون حملوں، شہزادی ڈیانا کی موت اور یوکرین میں چرنوبل حادثے کی درست پیش گوئی کی تھی۔
اگرچہ ان کے انتقال کو تقریباً 25 برس بیت چکے ہیں، لیکن بہت سے لوگ ان کے الفاظ پر مذہبی عقیدہ رکھتے ہیں، اور رواں سال کے لیے ان کی پیش گوئیاں بھی کچھ کم اثر انگیز نہیں ہیں۔
حالانکہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں ان باتوں پر یقین نہیں رکھنا چاہئیے اور یہ مضمون بھی بطور تفریح اور معلوماتی طور پر شائع کیا جارہا ہے۔
بابا وانگا نے خبردار کیا ہے کہ سال 2022 میں شہر پانی کی قلت کا شکار ہوں گے، جس کے سیاسی نتائج برآمد ہوں گے اور ممالک متبادل حل تلاش کرنے پر مجبور ہوں گے۔
یورپ کے بڑے حصوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب پہنچ چکا ہے، جنگلوں میں بڑھتی آگ سے نبرد آزما موسمیاتی تبدیلی کے کارکنان بھی بھی اسی طرح کی سخت وارننگ جاری کرچکے ہیں۔
بابا وانگا نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ شدید سیلاب، زلزلے اور سونامی کئی ایشیائی ممالک اور آسٹریلیا کو ہلا کر رکھ دیں گے۔
بابا وانگا نے درجہ حرارت میں کمی کی وجہ سے ہندوستان میں قحط کی پیش گوئی بھی کی ہے۔
انہوں نے ایک اور وبائی بیماری کا بھی تصور پیش کیا جو اس بار سائبیریا میں دریافت ہوگی، یہ برف میں دفن ایک منجمد وائرس کی وجہ سے پھیلے گی جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آزاد ہوگا۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بابا وانگا کی پیش گوئیاں پوری ہوتی ہیں۔
1996 میں ان کی موت سے پہلے سیکڑوں لوگ ان سے ملنے کے لیے جاپان سے بلغاریہ کے کوزوہ پہاڑوں میں واقع ان کے دور دراز گاؤں گئے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد مختلف مشرقی یورپی اور سوویت رہنماؤں نے بابا وانگا سے مشورہ طلب کیا۔
کہا جاتا ہے کہ سوویت یونین کے رہنما لیونیڈ بریزنیف نے 1982 میں اپنی موت سے پہلے کم از کم ایک بار ان سے مشورہ کیا تھا۔
لیکن 2022 کا باقی حصہ کیا لے کر آئے گا؟ اس بارے میں گھبرانے سے پہلے، یہ جاننا ضروری ہے کہ بابا وانگا کی تمام پیش گوئیاں درست چابت نہیں ہوئیں۔
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی مبینہ پیش گوئیوں میں کامیابی کی شرح 85 فیصد تھی، جس نے انہیں یورپ اور سابق سوویت یونین کے ممالک میں مقبول بنایا۔
Comments are closed on this story.