کیا پاکستانی روپے کا بد ترین دور ختم ہو چکا؟
روپے کی بے قدری کے حوالے سے جولائی ملکی تاریخ کا دوسرا بد ترین مہنیہ قرار پایا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپیہ کیا لائحہ عمل اختیار کرکے اپنی قدر میں بہتری لا سکتا ہے۔ وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو یقین ہے کہ ملک میں ڈالر 235 تا 240 کے درمیان کی سطح پر تھم جائے گا۔
موجودہ اتفاق رائے یہ ہے کہ بدترین مراحل گزر چکے ہیں جب کہ قیمتوں میں ایڈجسمنٹ اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے در آمدات پر غیر رسمی پابندیوں کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ میں بہتری آ رہی ہے۔
گزشتہ ماہ ملکی در آمدات میں واضح کمی دیکھی گئی ہے تاہم پچھلے مہنیوں کی در آمدات کی رقم ادائیگی کا بہاؤ اب بھی جاری ہے اور ملک کو سیاسی غیر یقینی صورتحال سے چھٹکارا حاصل نہ ہو سکا۔ اس طرح سیاسی و معاشی خبروں کے بہاؤ کے بغیر پاکستانی روپے کو مستحکم ہونے کی ضرورت ہے۔
پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے عملوں کے مابین معاہدے طے پانے کے باوجود سیاسی غیر صورتحال نے آئی ایم ایف سے حاصل ہونے والی قسط کی رقم کو شکوک شبہات میں مبتلا کردیا ہے۔ اگر سیاسی صورتحال کو برطرف کر دیا جائے تب بھی ملکی کرنسی کی بے قدری اقتصادی وجوہات کی بنا پر توقعات سے زیادہ ہوئی۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو 500 سے 1000 ملین ڈالرز تک پہنچنا ہے، آئی ایم ایف سے قرض کی قسط موصول ہونے پر بیرونی ادائیگیوں کا بہاؤ اور اسٹیٹ بینک کے ذخائر کی پوزیشن میں بہتری آئے گی، واضح رہے کہ گزشتہ ماہ زیادہ رقم کی ادائیگی کا بہاؤ روپے کی قیمت میں کمی کا سبب بنا تھا۔
روپے کی بے قدری کی وجہ رواں سال کے مئی اور جون میں توانائی کی زیادہ در آمد کرنے کا فیصلہ تھا جس کی ذمہ دار وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت ہے، اس متعلق وزیراعظم آفس اور وزارت توانائی معاشی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے وزارت خزانہ کے مشورے کے خلاف حرکت میں آئے۔
اُس وقت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں، بجلی کی لوڈشیڈنگ میں فوری طور اضافہ کرنے کے ساتھ دفتری اوقات کار میں فوری کمی کرنے کی ضرورت تھی مگر حکومت نے اس برعکس اقدامات کیئے۔
موجودہ کرنٹ ااکؤنٹ خسارہ 2 ارب 30 کروڑ ڈالر جب کہ توانائی درآمد کا بِل دو ارب 90 کروڑ ڈالر ہوگیا ہے، وزارت خزانہ کے مطابق پی بی ایس کی مجموعی در آمد 4 ارب 50 کروڑ ڈالر ہے جس میں 1 ارب 20 کروڑ توانائی اور بقیہ تین ارب 30 کروڑ ڈالر پر مبنی ہے۔
ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ان فلوز اب بہتر ہونے جا رہے ہیں جب کہ گزشتہ دو ہفتوں میں کئی در آمد کندگان اور ترسیل کاروں نے روپے کی گرتی قیمت کی وجہ سے ان فلو کو سست کردیا تاہم اب یہی ان فلوز کے چند ہفتوں میں بہتر ہونے کے واضح امکانات ہیں۔
مختصراً، پاکستانی روپیہ اپنی موجودہ قدر کے مقابلے مستحکم ہو سکتا ہے اگر فرض کرلیں کہ ملک میں سیاسی محاذ پر کوئی منفی خبر نہ آ سکے۔
Comments are closed on this story.