زیارت آپریشن میں ہلاک نوجوان میڈیا کے سامنے “زندہ” پیش
زیارت میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران مبینہ طور پر مارا جانے والا شخص میڈیا کے سامنے آگیا۔
لاپتہ افراد کی فہرست میں ہونے کے باوجود ظہیر احمد بنگزئی نامی شخص منظر عام پر آگیا۔
ظہیر احمد بنگلزئی نے میڈیا کو بتایا کہ وہ پیشے سے اعتبار سے انجنئیر ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگاری سے تنگ آکر وہ ایران کے راستے ایجنٹ کے ذریعے یورپ کی جانب نکلے، مگر ایرانی فورسز نے گرفتار کر لیا۔
ظہیر احمد کا کہنا ہے کہ وہ دس ماہ ایرانی فورسز کی قید میں رہنے کے بعد آج گھر پہنچ گئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ مجھے کسی ادارے نے نہیں اٹھایا نہ ہی میرا کسی تنظیم سے تعلق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے لاپتہ ہونے اور پھر زیارت آپریشن میں فورسز کے ہاتھوں مارے جانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔
ظہیر احمد کے اہل خانہ بھی بیٹے کی واپسی پر انتہائی خوش ہیں۔
بنگلزئی قبیلے کے رہنماء نور احمد بنگلزئی کا کہنا ہے کہ بلوچ نوجوان پڑھے لکھے باشعور ہیں، انہیں استعمال کرنا بند کیا جائے۔
لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ زیارت آپریشن میں مارے گئے افراد میں لاپتہ افراد شامل ہیں، جنہیں قتل کیا گیا ہے۔
بلوچستان حکومت نے زیارت آپریشن سے متعلق ہائی کورٹ کے جج جسٹس اعجاز سواتی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنایا جو زیارت آپریشن میں مارے جانے والے افراد کے لاپتہ ہونے یا نہ ہونے کی تحقیقات کر کے 30 روز کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔
Comments are closed on this story.