نوشہرہ میں دریائے کابل کے کنارے سے ملنے والی بچی کی شناخت ہوگئی
پشاور: نوشہرہ میں دریائے کابل کے کنارے ملنے والی دو سالہ بچی کی لاش کی شناخت ہوگئی۔
پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثرہ علاقوں سے بدھ کی شام ایک ایسا منظرسامنے آیا جس نے دیکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے کردیے۔
مٹیالے گدلے پانی میں ڈوبی چٹائی پر ایک ابدی نیند سوئی ایک بچی کی لاش دیکھی گئی جس کے جسم کا نصف سے زائد حصہ پانی میں تھا۔
بیشتر سوشل میڈیا صارفین نے یہ تصاویر ٹویٹ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ سیلابی ریلے کا شکار ہونے والی اس کم سن بچی کی لاش جنوبی پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان سے ملی ہے۔
لیکن حقائق اس سے مختلف ہیں، سارہ نامی بچی کی لاش نوشہرہ میں دریائے کابل کے کنارے تیرتی ملی تھی۔
امدادی ادارے ریسکیو 1122 کے مطابق بچی کی لاش منگل 26 جولائی کو دریائے کابل کے ایک کنارے سے ملی تھی، مقامی افراد نے لاش کو نکال کر امدادی اہلکاروں کو اطلاع دی، عملے نے موقع پر پہنچ کر بچی کی لاش کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال منتقل کیا جس کے بعد ورثا کی تلاش کے لیے کوششیں شروع کی گئیں۔
اس بچی کی شناخت سارہ ولد مبارک گل کے نام سے ہوئی جس کے والدین پشاور کے علاقے حسن گھڑی کے رہائشی ہیں، جنہوں نے آج نیوز پشاور کے نمائندے کامران علی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بچی گھر کے باہر نہر میں گری تھی لیکن بروقت امدادی کارروائی نہ ہونے سے آگے بہہ گئی۔
مبارک گل کے مطابق چار روز قبل وہ اپنے سسر کے گھر فیملی کے ہمراہ گئے تھے جہاں ان کی 7 سالہ سالی ان کی بیٹی کو باہر لے کر گئی اور سارہ اس سے نہر میں گر گئی۔
مبارک نے بتایا کہ بچی گرتے ہی ریسکیو 1122 کو اطلاع دی جب ریسکیو ٹیم آدھے گھنٹے کے بعد پہنچی تو ان کے پاس نہر میں اترنے کے لئے کوئی سامان نہیں تھا جس وجہ سے انہوں نے نہر میں اترنے سے گریز کرنا بہتر سمجھا کیونکہ نہر میں پانی کا بہاؤ معمول سے تیز تھا۔
مبارک علی نے کہا کہ بعد میں دوسری گاڑی سامان لے کر پہنچی اور پھر ریسکیو ٹیم دو گھنٹے تک مختلف مقامات پر اترنے کے لئے اندازہ لگاتی رہی، لیکن دو گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی ریسکیو ٹیم نہر میں نہیں اتر سکی۔
مبارک گل کے قریبی دوست اور حسن گھڑی کے رہائشی یعقوب نے آج نیوز کو بتایا کہ ریسکیو ٹیم کی تاخیر کی وجہ سے ان سمیت علاقے کے کئی لوگ مخلتف مقامات پر نہر میں بچی ڈھونڈنے کیلئے اترے مگر بہت کوششوں کے باوجود بچی نہیں ملی۔
مبارک گل نے بتایا کہ بچی نہ ملنے پر انہوں نے مختلف علاقوں میں مقیم اپنے رشتہ داروں کے ساتھ دریاؤں میں کشتی چلانے والے افراد کو بھی اطلاع دی تاکہ وہ بھی ان کی مدد کرسکے۔
مبارک گل نے کہا کہ ان کی بچی شام 6 بجے کے قریب نہر میں گر گئی تھی اور اگلے روز دوپہر 2 بجے انہیں اطلاع ملی کہ نوشہرہ میں دریائے کابل کے مقام پر سارہ کسی کشتی چلانے والے شخص کو مردہ حالت میں مل گئی ہے جنہوں نے متعلقہ تھانے کو اطلاع دے کر پیر سباق ہسپتال لاش کو پہنچایا۔
مبارک گل نے بیٹی کے موت کی ذمہ داری حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے گھر کے پاس نہر کے حصے پر جنگلہ نہیں جب کہ آمدورفت کے لئے پل بھی انتہائی نامناسب ہے اور آئے روز پل سے بچے گرنے کے واقعات سامنے آتے ہیں۔
مبارک گل نے کہا کہ محکمہ آیرگیشن کو کئی بار پل بنانے کے لئے درخواست دی لیکن محکمے نے پل بنانے کے بجائے ہمیں خود مناسب پل تعمیر کرنے کا کہہ دیا۔
ریسکیو1122 کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے بچی کے والد نے کہا کہ ریسکیو کا قیام ایمرجنسی صورتحال کے لئے عمل میں لایا گیا ہے اور اگر ریسکیو ایمرجنسی صورت میں عوام کی خدمت نہیں کرسکتے تو پھر اس کی کیا ضرورت ہے؟
مبارک گل حکومت سے مطالبہ کیا کہ نہ صرف ڈیوٹی میں غفلت برتنے والے عملے کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے بلکہ ریسکیو جیسے محکموں میں بھرتیوں کیلئے میرٹ کو ہر صورت میں یقینی بنایا جائے۔
Comments are closed on this story.