‘دماغ میں بھوسہ بھرا ہے؟’ عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ پر جسٹس (ر) ناصرہ اقبال کی کڑی تنقید
جسٹس (ر) ناصرہ اقبال کا کہنا ہے کہ عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرنا صریحاً توہینِ عدالت ہے، کسی بھی فریق کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی پسند کا پینل منتخب کرے۔
حکومتی اتحاد کی جانب سے فُل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی درخواست مسترد ہونے پر عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کئے جانے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس (ر) ناصرہ اقبال کا کہنا تھا کہ “ان کے دماغ میں بھوسہ تو نہیں بھرا ہوا؟ سب جانتے ہیں کہ آج کل چھٹیاں ہیں، کوئی لندن میں ہے کوئی پیرس میں اور کوئی جاپان میں، کہیں صبح ہوتی ہے، کہیں شام تو کہیں رات۔ نہ تو انٹرنیٹ پر آن لائن ججز کو کارروائی میں شامل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں واپس بلایا جاسکتا ہے۔”
جسٹس ناصرہ جاوید اقبال ایک پاکستانی ماہر قانون اور پروفیسر ہیں جنہوں نے 1994 سے 2002 تک لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کے طور پر خدمات انجام دیں۔
آج نیوز سے گفتگو میں محترمہ ناصرہ اقبال نے کہا، “اسی وجہ سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ فُل بینچ تشکیل دیا گیا تو ستمبر سے پہلے یہ کیس سنا ہی نہیں جا سکتا تھا۔”
میڈیا پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “ہماری ریاست کا ستون میڈیا جو ان کے ذہن میں فطور ڈالتا ہے وہی بکواس وہ آگے کرتے ہیں، آپ کا کردار ہے قوم کو مثبت راستہ دکھانا شعور پیدا کرنا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “مملکت کے باقی تین ستون عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرتے ہیں۔”
لاہور ہائیکورٹ کی سابق جج نے کہا کہ “یہ کیس عدلیہ کے سامنے آنا ہی نہیں چاہئے تھا، انہیں چاہئے کہ یہ اپنے جھگڑے خود ہی نمٹائیں، الیکشن کمیشن کے پاس جائیں، جان بوجھ کر عدلیہ کو بدنام کیا جاتا ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ “ایک ہی ادارہ ہے جس کے پاس لوگ داد رسی کے لیے جاتے ہیں، چیف جسٹس کہہ چکے ہیں کہ اگر بقیہ تین ججز بھی پینل میں شامل کردیں تو عوام کے کیسز کون سنے گا؟َ”
جسٹس (ر) ناصرہ اقبال نے کہا کہ “ہزاروں کیسز کی سماعت التوا کا شکار ہے اور یہ فضول اور بکواس چیزیں لے کر عدالت میں آتے ہیں اور وقت ضائع کرتے ہیں۔”
حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “پچیس کروڑ عوام کا یہ حال ہے کہ لوگوں کو ایک وقت کا کھانا نہیں ملتا اور اربوں روپے رشوت ستانی پر ضائع ہو رہے ہیں، ایسے ایسے طریقے نکالے جاتے ہیں جو کبھی سننے کو ہی نہیں ملیں، کیا یہ جمہوریت ہے؟”
ان کا مزید کہنا تھا کہ “خیبر پختونخوا (کے پی) کی پارٹی کا لیڈر جو مولوی بیٹھا ہے اس کا پنجاب سے کوئی تعلق نہیں، ایسے ایسے لوگ اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں جن کا معاملے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔”
Comments are closed on this story.