Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

کیا بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات تبدیلی کی ایک جھلک تھے؟

جہاں قتل و غارت عام ہو اور عورتوں کی تعلیم پر پابندیاں لگائی جائیں وہاں عورتوں کا سیاسی عمل میں حصہ لینا یقیناً کسی کامیابی سے کم نہیں۔
اپ ڈیٹ 07 جون 2022 08:38am

مبشر حسین

گزشتہ دنوں بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہوئے، چند ایک حلقوں کے علاوہ کہیں پر بھی پر تشدد کے واقعات یا قتل و غارت کی کوئی خاص رپورٹ درج نہیں ہوئی۔ بلوچستان کے پس منظر کے حوالے سے مختصر بات کی جائے تو یہ وہ صوبہ ہے جہاں علیحدگی پسند جماعتوں کی سرگرمیاں کثیرتعداد میں ہوتی ہیں اورماضی میں ہوتی رہی ہیں۔

خودکش دھماکے، اداروں اور پاک فوج، ایف سی کے جوانوں پر حملے ہونا وہاں کا معمول تھا۔ ایسے صوبے میں پر امن طریقے سے بلدیاتی انتخابات کا ہونا یقیناً ریاستوں اور اداروں کی فتح ہے۔

لیکن اس کے علاوہ اگر کوئی کامیابی ہے تو وہ یہ کہ ایسے صوبے میں الیکشن میں کھڑے ہونے والوں میں سے عورتوں کی بھی کثیر تعداد رہی۔

جہاں قتل و غارت عام ہو اور عورتوں کی تعلیم پر پابندیاں لگائی جائیں وہاں عورتوں کا سیاسی عمل میں حصہ لینا یقیناً کسی کامیابی سے کم نہیں۔ پورے صوبے میں تقریباً 132 عورتوں نے الیکشن میں حصہ لیا، چند خواتیں تو بعض حلقوں میں بلا مقابلہ کامیاب ہوئیں اور بعض حلقوں میں الیکشن سے کامیاب ہوئیں۔

عورتوں کا اتنی تعداد میں الیکشن کا لڑنا اور کامیابی کسی تبدیلی سے کم نہیں۔

بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مملکت خداداد کے لوگ بدل رہے ہیں، ان کی سوچ بدل رہی ہے جو کہ کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے بہت سودمند ہے اور ان حالات میں ایسی خبریں ملنا یقیناً ہماری عوام کیلئے حوصلہ کن ہے جہاں ایسی خبریں موصول ہو رہی ہوں کہ عورتوں کو خودکش دھماکوں میں استعمال کیا جا رہا ہے، مزید عورتوں کو ریاست مخالف ایجنڈا پر کام کرنے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان تمام عورتوں کا الیکشن لڑنا ان کالعدم تنظیمات اور بھارتی ایجنٹوں کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے جو ریاست مخالف ہتھکنڈوں میں مصروف عمل ہیں۔

ایک اور واضح تبدیلی بلدیاتی انتخابات میں نظر آئی وہ یہ کہ گوادر جیسے شہر میں ایک ایسی تحریک کا 40 فیصد الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا جس کو بنے ہوئے ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا اور پورے گوادر سے اس تحریک نے پرانی پرانی سیاسی جماعتوں کو پچھاڑ دیا، اس تحریک کا نام “حق دو تحریک” ہے جس کی قیادت مولانا ہدایت الرحمان کے کندھوں پر ہے۔

مولانا ہدایت الرحمان کو بعض اوقات گودار کے مولانا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

یہ تحریک ابھی کچھ ماہ پہلے ہی گوادر میں مچھیروں کے حقوق کیلئے معرض وجود میں آئی اور اپنے مطالبات منوانے کیلئے دن رات یہ لوگ اپنی قیادت کے ساتھ سڑکوں پر رہے اور حکومت و ریاستی اداروں کو مجبور کیا کہ ان کے جائز مطالبات مان لیے گئے اور تمام مچھیروں کو ان کے حقوق دینے کی یقین دہانی کروائی گئی۔ جس کے بعد اس تحریک نے الیکشن میں حصہ لے کرسیاست کا عملی قدم بڑھایا۔

جہاں عوام کے پاس برسوں پرانی سیاسی جماعتیں ہوں، وڈیرہ شاہی نظام ہو، تعلیم کا فقدان ہو، ایسے شہر میں ایسے لوگ تمام خوف کے بتوں کو تارتار کر کے ایک نئی تبدیلی لیکر آئیں یقینا یہ بات حوصلہ کن ہے۔

اس کے بعد کثیر تعداد میں آزاد امیدوارں کا انتخاب جیتنا بھی محوحیرت ہے۔

اگر بلوچستان صوبے کے بلدیاتی انتخابات کا مکمل جائزہ لے کر تجزیہ کیا جائے تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اب عوام پرانی سیاسی جماعتوں کے پرانے گھسے پٹے نعروں سے تنگ آ کر عملی کام دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کے حقوق کا اصل محافظ ہے کون۔

ایک ایسا صوبہ جہاں کی عوام کو ہمیشہ تعلیم اور شعور سے دور رکھا گیا اور اس صوبے کے انتخاب کا نتیجہ پرانی روایات سے بلکل مختلف آئے تو ان تمام سیاسی جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اب عوام کو نعروں، مخالفیں پر جملے کسنے کے ساتھ مزید بیوقوف نہیں بنا سکتے۔

لہٰذا اب نام اسی کا رہے گا جس کی قیادت عوام میں رہے گی، عوام کے ساتھ رہے گی اور عوامی مطالبات کو مکمل کروائے گی۔

اس مکمل صورتحال کو دیکھ کر فیض احمد فیض کے شعر کا ایک مصرعہ یاد آتا ہے:

اب راج کرے گی خلق خدا جومیں بھی ہوں اور تم بھی ہو

پاکستان

بلوچستان

local government elections