Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

پنجاب: ہراسگی کے کیسز رپورٹ ہونے پر واٹس ایپ، فیس بک کو ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا

ہرا سگی کا شکار ہونے والوں میں سب سے زیادہ 18 سے 30 سال کی عمر کے بچے اور خواتین شامل، ہراساں کرنے کی 1,258 شکایات کے ساتھ واٹس ایپ سرفہرست ہے۔
اپ ڈیٹ 19 مئ 2022 12:33pm

اسلام آباد: پنجاب میں ہراسگی کے سب سے زیادہ کیسزز رپورٹ ہونے پر واٹس ایپ اور فیس بک جیسے ٹاپ پلیٹ فارمز کو ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا ہے۔

واچ ڈاگ نے رپورٹ کیا کہ پنجاب میں لوگوں نے پچھلے 5 سالوں میں ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) سائبر ہراساں کرنے والی ہیلپ لائن پر سب سے زیادہ کال کی ہیں۔

ڈی آر ایف جو رازداری اور آن لائن ہراساں کرنے پر کام کرتا ہے، اس نے 5 سال کا ڈیٹا جاری کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب میں 2 ہزار 515 کیسز تھے۔

ڈی آر ایف کے مطابق اس کی ہیلپ لائن تک پہنچنے والے مجموعی طور پر لوگوں نے کہا کہ واٹس ایپ اور پھر فیس بک وہ جگہ تھیں، جہاں ہراساں کیا جا رہا تھا جبکہ ہرا سگی کا شکار ہونے والوں میں سب سے زیادہ 18 سے 30 سال کی عمر کے بچوں اور خواتین شامل تھیں۔

اس کے علاوہ ڈی آر ایف نے رپورٹ میں پالیسی سازوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے سفارشات کی ہیں ساتھ ہی آج نیوز کی عاصمہ شیرازی جیسی خاتون صحافیوں کے کچھ کیسز کو اجاگر کیا ہے، جن کے ساتھ آن لائن ہرا سگی ہوئی ہے۔

گزشتہ 5 سالوں میں ہیلپ لائن کو کل 11,681 کیس موصول ہوئے ہیں جبکہ 2021 میں4,441 تھے، جو مارچ اور ستمبر کے درمیان نمایاں اضافے کے ساتھ ماہانہ اوسطاً 370 کیسز پر آتے ہیں۔

پنجاب میں کل رپورٹ کردہ شکایات کا 66 فیصد تھا، اس کے بعد سندھ سے بہت کم 671 اور پھر خیبرپختونخوا سے 282 کیس رپورٹ ہوئے جبکہ اسلام آباد اور پاکستان سے باہر کیسز کی تعداد بالترتیب 151 اور 94 تھی۔

مزید برآں بلوچستان سے 69 اور کشمیر سے 24 کیسز رپورٹ ہونے کے ساتھ ہی گلگت بلتستان سے کل 7 شکایات موصول ہوئیں۔

ڈی آر ایف کے مطابق بہت سے لوگوں نے سائبر ہراسانی پر بات کرنے کیلئے بغیر کوئی شکایت کیے فون کیا جبکہ زیادہ تر کالز کا تناسب 32.5 فیصد رہا۔

تاہم یہ تمام کالز ایسی جگہوں سے آئی، جہاں ایف آئی اے کا کوئی دفتر نہیں ہے اور 22.7 فیصد اور 15 فیصد کال کرنے والوں کا تعلق بالترتیب پاکستان کے 2 اہم شہروں لاہور اور کراچی سے تھا۔

خیال رہے کہ رپورٹ ہونے والے 60 فیصد کیسز سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ڈائریکٹ میسجنگ ایپلی کیشنز سے منسلک تھے جبکہ ہراساں کرنے کی 1,258 شکایات کے ساتھ واٹس ایپ سرفہرست ہے، اس کے بعد فیس بک 1,014 شکایات کے ساتھ ہے۔

تاہم مجموعی طور پر موصول ہونے والی 68 فیصد کالیں خواتین کی تھیں اور نصف سے بھی کم یا 30 فیصد مردوں کی تھیں اور ایک فیصد صنفی اقلیتوں کی تھی۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی ڈائریکٹر کا تشویش کا اظہار

ڈی آر ایف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد کا کہنا ہے کہ"سائبر ہراسمنٹ کے واقعات جس رفتار سے بڑھ رہے ہیں، وہ تشویشناک ہے۔"

انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کو سب کیلئے ایک محفوظ اور مساوی جگہ بنانے کیلئے مناسب کارروائی کی ضرورت ہے۔

نگہت داد نے کہا کہ "جب تک تمام تبدیلی کیللئے کوئی اقدامات نہیں اٹھاتے، ہم کمزور گروہوں کیخلاف وہی امتیازی سلوک جاری رہے گا، جنہیں ہم آف لائن دیکھتے ہیں"۔

آج نیوز کی اینکر عاصمہ شیرازی نے اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ حال ہی میں حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں میرے کالم کے جواب کے طور پر مجھے میرے خلاف بڑے پیمانے پر اور پرتشدد آن لائن پروپیگنڈا موصول ہوا جو ٹویٹر پر کئی دنوں سے ٹرینڈ کر رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میری کرادر کشی کی گئی، مجھے غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا گیا اور میرے اور میرے خاندان کیخلاف بھی غلیظ گالیاں دی گئیں۔

عاصمہ شیرازی نے کہا کہ یہ تمام زبانی حملے ایک سے زیادہ اکاؤنٹس سے آرہے تھے، تو ہم ان سے کتنا لڑ سکتے ہیں خاص طور پر جب وہ اپنے کی بورڈ کے پیچھے بیٹھے ہوں؟

سائبر ہراساں کرنے والی ہیلپ لائن 1 دسمبر 2016 کو شروع کی گئی تھی اور یہ صنف کے لحاظ سے حساس، خفیہ اور مفت خدمات کے ساتھ آن لائن تشدد کے لیے خطے کی پہلی ہیلپ لائن ہے۔

ہیلپ لائن ایک مناسب ریفرل میکانزم کے ذریعے قانونی مشورہ، ڈیجیٹل مدد اور بنیادی نفسیاتی مدد فراہم کرتی ہے جبکہ ٹول فری نمبر (0800-39393) پیر سے اتوار، صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک دستیاب ہے، تاہم ای میل اور ڈی آر ایف کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنی خدمات کو بڑھاتا ہے۔

اس کے علاوہ 2021 میں بلیک میل (893 شکایات) کی اطلاعات ملی جبکہ 727 کیسز تصاویر کے غیر رضامندی کے استعمال کے تھے۔

ڈی آر ایف الیکٹرانکس کرائمز ایکٹ (PECA) کے سیکشن 53 اور عوام تک اس کی رسائی کے مطابق باقاعدہ 6 ماہ کی رپورٹنگ کا مطالبہ کرتا ہے۔

ڈی آر ایف کا کہنا ہے کہ سیکشن 20 PECA کو منسوخ کر کے آن لائن ہتک عزت کو جرم قرار دیا جانا چاہیے، جو کہ ہراساں کیے جانے اور حملے سے بچ جانے والوں کو خاموش کرنے کیلئے باقاعدگی سے استعمال کیا جاتا ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے ہیلپ لائن غیر ملکی دائرہ اختیار میں مقدمات سے نمٹنے کیلئے وسیع تر طریقہ کار کی سفارش کرتی ہے، جس کا ذکر PECA کے سیکشن 1(4) میں بھی کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں رازداری کی زیادہ سے زیادہ یقین دہانی کو رپورٹنگ کی شرط کے طور پر بھی کہا گیا ہے جس کا تذکرہ فیڈرل انویسٹی گیٹو اتھارٹی (FIA) کے PECA رولز کے رول 9 کے تحت بھی کیا گیا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن پاکستان میں ایک رجسٹرڈ ریسرچ پر مبنی این جی او ہے، جو 2012 میں قائم کیا گیا۔ ڈی آر ایف انسانی حقوق، جامعیت، جمہوری عمل، اور ڈیجیٹل گورننس کی حمایت کیلئے ICTs پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔

تاہم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن پاکستان آن لائن آزادانہ تقریر، رازداری، ڈیٹا کے تحفظ اور خواتین کیخلاف آن لائن تشدد کے مسائل پر کام کرتا ہے۔

اسلام آباد

social media

Punjab Govt