Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

عمران خان کی مقبولیت انہیں انتخابات میں فائدہ پہنچا سکے گی؟

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ عمران خان کا 'سازشی بیانیہ' مستقبل میں ان کو فائدہ دے گا یا نقصان اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا۔
شائع 18 مئ 2022 11:40pm
فائل فوٹو: روئٹرز
فائل فوٹو: روئٹرز

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ عمران خان کا 'سازشی بیانیہ' مستقبل میں ان کو فائدہ دے گا یا نقصان اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا، لیکن ابھی یہ بیانیہ عوام میں بے حد مقبول ہو رہا ہے اور سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کوعوامی سطح پر اس کا مقابلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا کر پڑسکتا ہے۔ کیا عمران خان کا 'سازشی بیانیہ' ان کے طرزِ حکمرانی میں خرابیوں اور کارکردگی کو عوام کے ذہنوں سے نکال سکے گا؟

کس کے لیے 'جال' بچھایا گیا؟ کون 'ٹریپ' ہوا؟ اور مقتدر حلقے کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟ ایک بار پھر نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ عمران خان نے کہا تھا میں حکومت سے نکل کر زیادہ خطرناک ہو جائوں گا۔ لگتا ہے انہوں نے اسے ثابت کردیا ہے۔ کیونکہ اس وقت وہ نہ صرف اپوزیشن بلکہ ان قوتوں کو بھی للکار رہے ہیں جو ان کو اقتدار میں لے کر آئی تھیں۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ۔ بلکہ ساتھ ہی انہوں نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو بھی اپنی 'بندوق کی شست' پر رکھا ہوا ہے۔

یہ خاصا مشکل کام ہے کہ اپنے تمام مخالفین کو ایک ہی وقت میں ہدف پر رکھا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سب کو ٹارگٹ پر رکھ کر کیا وہ اپنا مقصد حاصل کر پائیں گے؟ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے اگلے چند ہفتے بہت اہم ہوں گے۔

عمران خان نے 20 مئی کے بعد سڑکوں پر آنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم حقیقی آزادی کے لیے سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ اگر وہ واقعی اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کرتے ہیں اور چند لاکھ افراد لانے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ بہرحال حکومت کے لیے گھبرانے کا وقت ہوگا۔ نہ صرف اتحادی حکومت اس سے گھبرا سکتی ہے، بلکہ حقیقی مقتدر قوتوں کو سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ عمران خان نے بطورِ اپوزیشن لیڈر گفتگو کی تھی جس میں نازیبا الفاظ بھی استعمال کیے گئے تھے۔ اگر اسے سامنے رکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ عمران خان اس پر کنونس ہوگئے ہیں کہ چند لاکھ افراد کو نکال کر اسٹیبلشمنٹ کو بیک فٹ پر لے جایا جاسکتا ہے۔ نوازشریف کے 'مزاحمتی بیانیے' کا تجربہ بھی عمران خان کے سامنے ہے۔

لیکن تب اور اب میں فرق کافی زیادہ ہے۔

نوازشریف کے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر تھی، جبکہ اس بار کچھ شکوک وشبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سو عمران خان کی اس مہم سے ریاست کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی ہوسکتا ہے۔ پھر جلسوں میں جس طرح انہوں نے سراج الدولہ کے سپہ سالار کی مثال دی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں مزید آگے بڑھنے کے ارادے رکھتے ہیں۔

لیکن یہ بہت اہم سوال ہے کہ جس طرح ماضی میں ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کو ٹارگٹ کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرتی رہی ہے کیا عمران خان بھی اس طرح فائدہ حاصل کرسکیں گے؟ کیا ان کے احتجاج کے نتیجے میں وقت سے پہلے انتخابات کا اعلان ہو جائے گا؟ یا اسٹیبلشمنٹ نئی حکومت کے ساتھ اسی طرح کھڑی رہے گی جیسے عمران خان حکومت کی پشت پر کھڑی رہی؟

سانپ سیڑھی کے اس کھیل میں جیت کس کی ہوگی اور ہار کس کا مقدر ٹھہرے گی؟ اس کا فیصلہ ہونے میں شاید بہت وقت نہ لگے۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کھیل میں سیاست سے زیادہ ریاست کو نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔

سیاسی اور معاشی عدم استحکام تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ڈالر کی مسلسل اونچی اُڑان ،اسٹاک مارکیٹ کی مندی اور دوست ممالک کا آئی ایم ایف سے مشروط تعاون، حالات کو کس نہج پر لے جائے گا اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔

ہمارے سامنے سری لنکا کی مثال ہے جس کے حالات پاکستان سے کچھ مختلف نہ تھے۔ وہاں اس وقت یہ حالات ہیں کہ کیا پاکستان میں بھی ایسے حالات جنم لے سکتے ہیں؟ اپوزیشن نے معیشت کے حل کے لیے 'آوٹ آف دا باکس' جانے کا اشارہ دیا ہے، کیا اس سے حالات کنٹرول ہونے میں مدد ملے گی؟ اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔

پاکستان

اسلام آباد

imran khan

Pakistan Tehreek e Insaf