گزشتہ 17 سالوں میں رضاکارانہ خون کے عطیات میں 9 فیصد اضافہ
سینئر ہیما تولوجسٹ نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں گزشتہ 17 سالوں کے دوران خون کے عطیات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے تاہم اب خون کے تمام عطیات میں سے 10 فیصد رضاکارانہ بنیادوں پر کیے جاتے ہیں، جو کہ 2005 میں 1 فیصد سے زیادہ ہے۔
دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق سینئر ہیماٹولوجسٹ ذیشان انصاری نے کہا کہ اگر کوئی شخص بغیر کسی ذمہ داری کے خون کا عطیہ دیتا ہے تو اسے رضاکارانہ عطیہ کہا جاتا ہے اور ایک شخص سال میں کم از کم 3 بار خون کا عطیہ دے سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں رضاکارانہ عطیہ 2005 میں محض 1 فیصد تھا جو گزشتہ 17 سالوں میں بڑھ کر 10 فیصد ہو گیا ہے، جو پاکستان میں تھیلیسیمیا کے شکار ہزاروں بچوں کے لیے بہت خوش کن ہے۔
پاکستان میں تھیلیسیمیا اور خون کے دیگر جینیاتی امراض کے علاج، انتظام اور روک تھام کیلئے کام کرنے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم کے زیر اہتمام خون کے عطیہ دہندگان کی کانفرنس میں ڈاکٹر ذیشان نے کہا کہ پاکستان میں تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کی پیدائش کے دوران یا بعد میں سرجری اور خون کی منتقلی کی ضرورت پڑنے والے مریضوں کی خون کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پاکستان میں سالانہ 2.5 سے 3 ملین خون کے تھیلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف پاکستان میں تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کے لیے ماہانہ تقریباً 150,000 بیگ درکار ہیں جبکہ ان بچوں کو ماہانہ یا 15 دن میں خون کی منتقلی کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے ان بچوں کے والدین اپنے بچوں کے لیے خون کا ایک تھیلا لینے کے لیے اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور دوسرے لوگوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔
ڈاکٹر ذیشان نے مزید کہا کہ پاکستان میں تھیلیسیمیا کے واقعات کو روکنے کی بھی ضرورت ہے جہاں خون کی خرابی کے ساتھ 6000 سے 8000 بچے پیدا ہوتے ہیں۔
دریں اثنا عمیر ثنا فاؤنڈیشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر ثاقب انصاری نے کہا کہ تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کو تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے وبائی امراض کے دوران خون جمع کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب حالات معمول پر آ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ مریض تھیلیسیمیا میں مبتلا ہیں اور ہر سال 5,000 بچے اس مہلک مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔
Comments are closed on this story.