جے یو آئی کی ’انصار الاسلام‘ کیوں قائم کی گئی ؟
پی ڈی ایم کی جانب سے سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے کے اعلان کے بعد پارٹی کی ٹاسک فورس ’ انصار الاسلام’ سوشل میڈیا پرزیر بحث ہے یکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ کیوں اور قائم کی گئی تھی؟
انصار الاسلام کا قیام اسی وقت عمل میں آیا تھا جب جمعیت علمائے اسلام معرض وجود میں آئی۔ پارٹی آئین میں ’انصارالاسلام‘ کے نام سے باقاعدہ ایک شعبہ ہے جس کی بنیادی ذمہ داری انتظام و انصرام قائم رکھنا ہے۔
اس ٹاسک فورس کا بنیادی ایجنڈا الیکشن اور ریلیوں کے دوران قیادت کی حفاظت کرنا ہے۔
انصارالاسلام کا تنظیمی ڈھانچہ اورشمولیت کا طریقہ
جے یو آئی اس گروہ کو اپنی جماعت میں ایک ”ونگ“ کہنے کے بجائے تنظیم کہتی ہے کیونکہ تنظیم میں درجہ بندی ہوتی ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے پارٹی آئین کی دفعہ نمبر 26 کے مطابق ہر باہمت مسلمان جوپابند صوم و صلوۃ، مستعد اور اورجے یو آئی کا رکن ہو وہ انصار الاسلام کا کارکن بن سکتا ہے۔
“ انصار الاسلام “ نامی تنظیم میں درجہ بندی کے اعتبار سے ایک مرکزی رہنما ہوتا، جس کے بعد صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی سطح پر رہنما ہوتا ہے۔
اس تنطیم میں شمولیت کیلئے ایک خاص تربیت حاصل کرنے کے بعد ہی شامل ہوا جاسکتا ہے جبکہ اس تنطیم کا لباس خاکی رنگ کی شلوار قمیض ہے، جو صرف اس کے رضا کار پہنتے ہیں۔ قمیض پر دو جیبیں لگی ہوتی ہیں۔
انصارالاسلام کا انٹیلی جنس وِنگ
تاہم (جے یو آئی) کی اس تنظیم میں ایک انٹیلی جنس وِنگ بھی قائم کیاہے ،جس کا نام حضرت حذیفہ بن یمان کے نام پر رکھا گیا ہے جو حضورﷺ کے اصحاب میں سے تھے۔
انٹیلی جنس وِنگ کے کارکن مشکوک افراد یا جلسے اور ریلیوں کے ارد گرد ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں جبکہ یہ پولیس پر بھی نگرانی رکھتے ہیں تاکہ وہ ان کی تنظیم کے کسی رہنما کو گرفتار نہ کر سکیں۔
اس کے ساتھ ہی ہنگامی صورتحال میں انٹیلی جنس وِنگ رہنماؤں کے لیے محفوظ طریقے سے باہر نکلنے کا منصوبہ بنانے کے ساتھ ان کے تحفظ کو بھی یقینی بناتا ہے۔
انصارالاسلام کے رضاکاروں کی تعیناتی کیسے ہوتی ہے
انصار الاسلام کے رضاکاروں کی کثیر تعداد پارکنگ لاٹ، داخلی راستوں اور اسٹیج کے آس پاس تعینات کی جاتی ہے۔
تنظیم کے رضاکار کسی بھی ریلی، جلسے یا احتجاج سے پہلے سیکیورٹی پلان مرتب کرنے کے لیے مقامی پولیس و انتظامیہ سے بھی ملتے ہیں۔
خیال رہے کہ ان کی تعیناتی کے لیئے تنظیم کی جانب سے خاکی وردی میں ملبوس اپنے رضاکاروں کو ان کے نام اور ڈیوٹی کی جگہ کے ساتھ ڈیوٹی کارڈ فراہم کیا جاتا ہے تاکہ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔
انصارالاسلام کے رضاکار ہاتھ نہیں ملا سکتے
جمعیت علمائے اسلام کے پیروکاروں کو اعلیٰ قیادت سے ہاتھ ملانے کی اجازت ہے لیکن انصار الاسلام کے رضاکاروں کو ایسا نہ کرنے کی ہدایت ہے۔
واضح رہے کہ نومبر 2019 میں وفاقی حکومت کی جانب سے جمعیت علمائے اسلام ف کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام پر پابندی بھی عائد کی گئی تھی۔
پارٹی آئین کے مطابق ’انصار الاسلام ’ کی قانونی حیثیت
ترجمان جمعیت علمائے اسلام خیبر پختونخوا عبدالجليل جان نےتنظیم کی قانونی حیثیت کے بارے میں آج ڈیجیٹل کو بتایا جمعیت علما اسلام الیکشن کمیشن میں ایک رجسٹرڈ پارٹی ہے اور ہم نے الیکشن کمیشن میں جو پارٹی دستور جمع کیا ہے، اس میں انصارالاسلام کا ذکر موجود ہے۔
“ انصار الاسلام “ میں درجہ بندی اور یونیفارم سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ درجہ بندی کے اعتبار سے مرکزی رہنما کے بعد صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی سطح پر رہنما ہوتا ہے۔
جلیل جان نے بتایا کہ ابتدائی دور میں ملیشیا میں ملبوس رضاکار اپنی ذمہ داری نبھاتے رہے ، پھر دستوری ترمیم کی وجہ سے وہی رضاکار سفید رنگ کی وردی میں کام کرتے تھے جبکہ موجودہ وردی کا رنگ خاکی یا مسٹرڈ ہے۔ انصارالاسلام تنظیم کے رضاکاروں کی مجموعی تعداد 40 ہزار تک ہے۔رضاکاروں کو کسی قسم کا اسلحہ یا چاقو رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔اس تنطیم میں شمولیت کیلئے ایک خاص تربیت حاصل کرنے کے بعد ہی شامل ہوا جاسکتا ہے۔
تنظیم میں شامل افراد بغیر کسی معاوضے کے پارٹی کے جلسے جلوسوں کو سیکیورٹی فراہم کرتے ہیں اور اپنے قائدین اور رہنماؤں کی سکیورٹی کو بھی یقینی بناتے ہیں۔
جلیل جان نے بتایا کہ سالاروں کے ہاتھوں میں ڈنڈا ہوتا ہے جو کہ شرعی طور پر سنت کا عمل ہے۔پارٹی ترجمان کے مطابق جب بھی جماعت کا ایک ہزار سے زائد شرکا پر مبنی جلسہ یا کوئی تقریب منعقد کی جاتی ہے، تو اس کی سیکیورٹی پر مامور کیے جانے کے لیے دو سو تک رضاکار بلائے جاتے ہیں اگر بڑا اجتماع ہو تو پھر ہر ایک ضلعے سے سو سے دو سو تک رضاکاروں کو بلایا جاتا ہے اور انہیں اسٹیج، قائدین اور جلسے کے شرکا کی سیکیورٹی کے لیے لگ الگ گروپ کی صورت میں تعینات کیاجاتا ہے۔
Comments are closed on this story.