جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج تقرری کی سفارش
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) نے وکلاء تنظیموں کی سخت مخالفت کے باوجود جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج کے طور پر تقرری کی منظوری دے کر تاریخ رقم کر دی جبکہ جسٹس عائشہ ملک لاہور ہائی کورٹ میں سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر تھیں۔
مزید تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس کے دوران9 رکنی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے 5 ارکان نے حق میں ووٹ دیا جبکہ 4ارکان نے جسٹس عائشہ ملک کو ترقی دینے کی تجویز کی مخالفت کی ۔
اس سے قبل پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کی کال پر وکلا نے جمعرات کو عدالتی کارروائی کی ملک گیر ہڑتال کیا تھا۔
اس معاملے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن وکلاء کی اعلیٰ باڈی کا موقف تھا کہ ججوں کو سپریم کورٹ میں ترقی دیتے وقت سنیارٹی کے اصول پر سختی سے عمل کیا جانا چاہیے۔
مزید براں جسٹس عائشہ ملک کی تقرری منظوری کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری کو ارسال کر دی ہے۔
جسٹس عائشہ کی تقرری پر ماہر قانون ریما عمر نے بھی خوشی کا اظہار کیا ۔
اس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی اور پارلیمنٹ کی لاء اینڈ جسٹس کی سیکرٹری ملیکا بخاری نے کہا کہ "ہمارے ملک میں ایک اہم اور قابل تعریفی لمحہ ہے کہ ایک خاتون جج کے طور پر پاکستان کی پہلی خاتون سپریم کورٹ کی جج ہون گی۔
علاوہ ازیں جسٹس عائشہ ملک 2 جون 2031 تک سپریم کورٹ کے جج کے طور پر کام کریں گے اور جنوری 2030 میں جسٹس یحییٰ آفریدی کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر کام کریں گے۔
اس کے علاوہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں چف جسٹس گلزار، سنیئر جج جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی، وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان بھی شریک تھے۔
یہ دوسرا اجلاس تھا جب چیف جسٹس گلزار احمد نے جسٹس عائشہ کا نام سپریم کورٹ کے جج کے لےر نامزد کاکیا۔
اسے سے پہلے جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ میں لانے کے لیے چیف جسٹس کی پہلی کوشش ناکام رہی کیونکہ جے سی پی نے 9 ستمبر 2021 کے اجلاس میں ان کے نام کی منظوری نہیں دی تھی۔
جبکہ اس دوران جے سی پی کے 4 اراکان ان کے حق میں جبکہ باقی 4 نے ان کے خلاف ووٹ دیا جبکہ جسٹس قاضی فائز عیٰسی اجلاس میں بیرونی ملک میں ہونے کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے۔
Comments are closed on this story.