حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان مذاکرات کامیاب
حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید نے تصدیق کی ہے کہ منگل کی شام تک یہ لوگ وہیں رہیں گے۔ جو راستے بلاک ہیں، وہ کھول دیئے جائیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مطالبات کا جائزہ لے کر منگل تک معاملہ حل کر لیا جائے گا۔ مظاہرین اس وقت تک پر امن رہ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کر وائیں گے۔ ٹی ایل پی کے زیر حراست افراد کو چھوڑ دیا جائے گا اور ماضی میں کیے گئے معاہدے کے تحت فرانسیسی سفارتکار کو بے دخل کرنے کے معاملہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے کہا ہے کہ حکومت نے مظاہرین کے تمام مطالبات کو سنا ہے، حکومت احتجاجی ریلی کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور اور مشاورت کرے گی، مظاہرین جہاں ہیں وہیں پرامن احتجاج جاری رکھیں گے، دھرنا پر امن رہے گا اور راستے کھلے رکھے جائیں گے، پرامن رہنے کی صورت میں پولیس اور سیکورٹی ادارے دھرنے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے، مطالبات کی منظوری کے بعد مظاہرین پرامن طور پر احتجاج ختم کر دیں گے۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم نے کالعدم تحریک لبیک کے سربراہ حافظ سعدرضوی سمیت تحریک کے دیگررہنماؤں اورکارکنان کی رہائی،ا ن کیخلاف بنائے گئے مقدمات ختم کرنے اورسعد رضوی کانام فورتھ شیڈول سے نکالنے سے متعلق دودن کی مہلت مانگی ہے۔
واضح رہے کہ لاہور میں کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان احتجاج کر رہے ہیں۔ احتجاج کے پیش نظرراولپنڈی میں انتظامیہ نے سیکورٹی سخت کردی تھی۔ فیض آباد کی طرف جانے والے راستوں، میٹرو روٹ اور مری روڈ پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے راستے اورشہر کے داخلی اور خارجی راستے بھی بند کیے گئے تھے۔ لاہور میں بھی احتجاج کے باعث کئی راستوں پر کنٹینر لگائے گئے تھے۔
٭ کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کا پس منظر
گزشتہ برس میں فرانس میں سرکاری سطح پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر مسلم دنیا میں سخت ردعمل آیا تھا خاص طور پر پاکستان میں بھی اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی اور تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا جسے حکومت کے ساتھ 16 نومبر کو معاہدے کے بعد ختم کردیا گیا تھا۔
تاہم مطالبات کی عدم منظوری پر تحریک لبیک نے 16 فروری کو اسلام آباد میں مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا تھا، بعدازاں مہلت ختم ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے مطالبات کی عدم منظوری اور معاہدے پر عملدرآمد نہ کیے جانے پر تحریک لبیک نے حکومت کو 20 اپریل کی ڈیڈ لائن دی تھی۔
تاہم 12 اپریل کو سعد رضوی کو امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے لاہور سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
ان کی گرفتاری کے بعد جس پر ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس نے بعدازاں پر تشدد صورت اختیار کرلی تھی جس کے پیشِ نظر حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کردی تھی۔
حافظ سعد حسین رضوی کو ابتدائی طور پر 3 ماہ تک حراست میں رکھا گیا اور پھر 10 جولائی کو دوبارہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایک وفاقی جائزہ بورڈ تشکیل دیا گیا جس میں 23 اکتوبر کو ان کے خلاف حکومتی ریفرنس لایا گیا۔
قبل ازیں یکم اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے سعد رضوی کی نظر بندی کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی تھی تاہم لاہور ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ ابھی تک تشکیل نہیں دیا گیا۔
بعدازاں حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے 12 اکتوبر کو سنگل بینچ کے حکم پر عمل درآمد معطل کردیا تھا اور ڈویژن بینچ کے نئے فیصلے کے لیے کیس کا ریمانڈ دیا تھا۔
تاہم 19 اکتوبر کو عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر نکالے گئے جلوس کو کالعدم جماعت نے اپنے قائد حافظ سعد رضوی کی رہائی کے لیے احتجاجی دھرنے کی شکل دے دی تھی۔
بعدازاں 3 روز تک لاہور میں یتیم خانہ چوک پر مسجد رحمت اللعالمین کے سامنے دھرنا دینے کے بعد ٹی ایل پی نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
Comments are closed on this story.