دہشتگردی، بھتے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات۔۔۔
غیرملکی خبررساں ادارےکی طرف سےدیےگئےاعدادوشمارکےمطابق سال 2020 میں خیبر پختونخوا کے مرج ایریا میں شدت پسند تنظیموں کی طرف سےکئےجانے والے حملو ں کی تعداد95تھی ۔اس سال 2021کےپہلے6ماہ میں44حملےہوئےجن کی ذمہ داری شدت پسندتنظیموں نےقبول کی جبکہ افغانستان کی بدلتی صورتحال کے بعد ڈھائی ماہ میں53حملے ہوچکے ہیں اور گزشتہ کچھ ہفتوں سےان حملوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہےجن میں کئی قیمتی جانیں بھی ضائع ہورہی ہیں۔خاص طور پر وزیرستان میں دہشتگرد حملوں میں اضافےاور نامعلوم افراد کی طرف سے بھتے کی کالز کےمعاملہ کے دوران وزیراعظم عمران خان کی طرف سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کچھ گروپوں سےبات چیت کی بات نئی بحث کو جنم دینے کا باعث بن گئی۔ترک میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا 'ٹی ٹی پی مختلف گروپس پر مشتمل ہے اورہم ان میں سے چند کے ساتھ ہتھیار ڈالنے اور مصالحت کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں'۔عمران خان نےکہا کہ 'ہم ان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد انہیں معاف کردیں گے جس کے بعد وہ عام شہریوں کی طرح رہ سکیں گے'۔
دہشتگردی اور بھتے کی کالز کا کیا کوئی لنک ہے ۔۔۔
کہانی شروع ہوئی ان علاقوں میں بڑھتےہوئے دہشتگردی کے واقعات سے جن میں ایک واقعہ خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع ٹانک میں زیر تعمیر گرلز مڈل اسکول میں ہونے والا دھماکا تھا۔جس کی تحقیق سےپتہ لگاکہ ٹانک اور وزیرستان میں گذشتہ کچھ عرصےسےبھتےکےلئے آنے والی کالزمیں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
کیا واقعی صورتحال ایسی ہی ہے یہ جاننے کے لئے ہم نے وزیرستان اور ٹانک میں کام کرنے والے ٹھیکداروں سے رابطہ کیا تاکہ معاملے کی اصلی حققیت تک پہنچا جائے لیکن یہاں ایک مشکل یہ پیش آئی کہ ٹھیکداراپنی شناخت کے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں تھے ۔ہم نے انکی شناخت محفوظ رکھنے کی شرط پر انٹرویو دینے کی درخواست کی تو کچھ اس طرح کے معاملات ہمارے سامنے آئے۔
ٹھیکدار نےبتایاکہ بھتہ خور 5 فیصدکمیشن لیتے ہیں،2007سےیہ سلسلہ چلا آرہا تھاجو ملٹری آپریشن کے بعد تھم گیا لیکن 2019 کے بعد سے یہ سلسلہ پھر سے شروع ہوا ہے۔اس مقصد کےلئے الگ الگ بندے مقرر کیے گئے ہیں جوکہ مختلف ترقیاتی پراجیکٹ سے کمیشن جمع کرتے ہیں۔ جولائی کے مہینے میں ٹانک میں بھی ایسا واقعہ پیش آیا جس میں ایک ڈاکٹر کے گھر پر بھتہ نہ دینے پر حملہ کیا گیااور ٹانک چونکہ وزیرستان کےقریب علاقہ ہےتویہاں بھی ایسےواقعات رپورٹ ہورہے۔ ٹانک کےملحقہ علاقے میں زیرتعمیر گرلز مڈل اسکول کے ٹھیکیدار کو بھتہ دینے کاکہا گیا تھا لیکن بھتہ نہ دینے پراسکول کی چار دیواری کو بموں سے نقصان پہنچایا گیا۔
ٹھیکدار نے بتایا جنوبی وزیرستان میں جہاں بھی کوئی پراجیکٹ شروع ہو،چاہےوہ بحالی کا کام ہو یا پھر سول گورنمنٹ کی طرف سے اس میں بھتہ لیا جاتا ہےاور اگرکوئی بھتہ نہیں دیتاتو اس کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور اکثر نقصان پہنچانے کےلئے اسکے بنائے گئے پراجیکٹ کوبم سے تباہ کردیا جاتا ہے۔
ٹھیکداروں کا کہنا ہےکہ جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی اداروں کی طرف سے تفتیش کی جارہی ہے کہ کن کن لوگوں نے بھتہ دیا ہے، لیکن ہم ٹھیکیدار کیا کریں کہ جب ہم کام کےلئے جاتے ہیں تب علاقے میں نامعلوم افراد بھتہ مانگتے ہیں اگر ہم نہ دیں تو کام نہیں کرسکتے ہیں اگر کبھی مطلقہ اداروں کو بتا بھی دیں تو کہتے ہیں کہ آپ لوگ کام کریں جیسے بھی ہو۔ ٹھیکداروں نے یہ بھی بتایا کہ اگر بھتہ مانگنے والے کو مقررہ لاگت سے کم بتا دیں تو ان کو پہلے سے اصل لاگت کا علم ہوتا ہے۔ جو کہ ہمارے لئے حیرانی کی بات ہوتی ہے۔
ٹھیکداروں کی پریشانیاں اور تحفظات یقیناًاہم ہیں انہی تحفظات کو آج نیوز نےڈی پی او ٹانک صاحبزادہ سجاداحمد کے سامنےرکھا توانویں نےاعتراف کیا کہ اس میں دو رائے نہیں کہ بھتے کی کالزکچھ لوگوں کو موصول ہوئیں جن میں ڈاکٹرز اور ٹھیکدار شامل ہیں ۔بھتہ خوری کے واقعات کی پولیس نےکاونٹر ٹیرارزم کے ساتھ مل کرتحقیقات کیں۔ہمارے پاس چارکیسز آئے جس میں کچھ ملزمان بھی گرفتار بھی ہوئے۔
صاحبزادہ سجاد نےکہاکہ ہمارے پاس ایک کیس آیا کہ کسی ٹھیکدار کو بھتے کی دھمکی ملی ہے ہم نے اس کو کہا کہ وہ رپورٹ لکھوائےلیکن وہ ڈر کےمارے راضی نہیں تھا۔ جب ہم نے اس کی کونسلنگ کی اور اُسے اعتماد دلایا تو اس نے گل امام تھانے میں رپورٹ درج کروائی جس پر پولیس اور سی ٹی ڈی نے مشترکہ کاروائی کرتے ہوئے کچھ گرفتاریاں کیں اورکافی تفصیلات بھی سامنے آگئیں کہ کس کیس میں کرمنل ہیں کس میں ملک دشمن عناصر شامل ہیں۔اسکول واقعے پر انوںں نے بتایا کہ اس پر انٹیلیجنس اداروں کی مدد سے کافی تحقیقات ہوئیں اور گرفتاری بھی ہو چکی ہے۔
ڈی پی او ٹانک نےواضح کیاکہ لوگ ایسے معاملات میں بتاتےنہیں۔وہ ڈرکی وجہ سےمسئلے کو چھپاتےہیں اور رپورٹ تک درج نہیں کرواتےجس کی وجہ سے کئی معاملات پس منظر میں ہی رہ جاتے ہیں جبکہ کچھ ایسےکیسزبھی سامنےآئےکہ جس میں لوگوں کے رقم کی لین دین پر تنازعات تھےاور دوسرے حریف نے رقم کی وصولی کےلئے کچھ کرمینلز کے ذریعے دھمکیاں بھیجیں اور معاملہ بھتے میں آگیا۔
صاحبزادہ سجاد نے کہا کہ ٹھیکدار کی تشویش کہ بھتہ خورروں کو ٹھیکے کی اصل رقم بھی معلوم ہوتی ہے تو اس کی وجہ ٹھیکوں کی ایک سے دوسرے کو منتقلی ہے جس سے اصل مالیت سامنےآجاتی ہے۔
ایسے وقت میں جب دہشتگردی کے واقعات کا بڑھ رہے ہیں تو بات چیت کیوں ؟؟؟؟
دہشتگردی کے واقعات کا بڑھنا اور وزیراعظم عمران خان کا کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کچھ گروپوں سےبات چیت کاعندیہ بھی کئی سوالات اٹھانےکاسبب بن رہا ہے۔کیونکہ اس سےقبل بھی2004میں حکومت نے جنوبی وزیرستان میں نیک محمد سےشکئی معاہدہ کیا گیالیکن معاملات کچھ اور طر ف چلے گئے۔دوسرا معاہدہ سراروغہ معاہدہ تھاجو حکومت اور بیت اللہ محسود کے درمیان ہوا۔ اس معاہدے کا مقصد طالبان کے مزید پھیلاؤ کوروکنا تھا لیکن نتیجہ اس کےبرعکس ہوا۔تیسرا معاہدہ 2008 میں سوات میں ملا فضل اللہ کے ساتھ ہوا لیکن وہ بھی زیادہ عرصہ نہیں چل پایا۔اس کے علاوہ بھی کئی بار بات چیت ہوتی رہی لیکن بات بنی نہیں اور پاکستان کے عوام کو دہشتگردی کی ایک ایسی عفریت کا سامنا کرنا پڑا جس کا خمیازہ 80ہزار جانوں کی قربانی اور قبائلی علاقوں کی تباہی کی شکل میں سامنے آیا اور اب ایک بار پھر ان سے بات چیت کی ایک اورکہانی۔کیا ایساہونا چاہیےہاوراس کے کتنے امکانات ہیں کہ بات چیت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
اس پر ہم نے بات کی سابق بیوروکریٹ اور سفیر رستم شاہ مہمند سے کیونکہ رستم شاہ مہمند اس کمیٹی میں شامل تھےجو 2013 میں حکیم اللہ محسود کے ساتھ بات چیت کےلئےبنائی گئی۔ رستم شاہ مہمند کے سامنے جب ہم نے سوال رکھا کہ کیاٹی ٹی پی سے مذاکرات ہونے چاہیئں تو انومں نے کہاکہ ایک رائےتو یہ ہے کہ بالکل نہیں ہونے چاہیئں بلکہ ان کا قلع قمع کرنا چاہیےنلیکن دوسری طرف اگر طالبان کی بات سنیں تو وہ کہتے ہیں کہ جس طرح آرمی بپلک اسکول واقعے سےقبل ان کے لوگوں کو مارا گیا۔ہیلی کاپٹروں سےپھینکا گیا۔کئی گھر تباہ ہوئے،بچے عورتیں مریں۔جسکا ردعمل آیا تو اس تناظر میں اگر وہ سرنڈر کرتے ہیں تو معافی دینی چاہیئےلیکن جو سرنڈر نہیں کرتے انہیں ختم کر دینا چاہیئے۔
لیکن معافی کی بات تو پہلے بھی ہوئی تھی اور آپ اس کمیٹی کا حصہ تھے ۔
اس سوال پر رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ گزشتہ معاہدے دونوں طرف سےبدنیتی پرمبنی تھےاگرچہ سویلین حکومت بات چیت کر کےمعاملات حل کرنا چاہتی تھی لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔
تو اب ایسا کیسے ہوگا؟یہ سوال اہم تھا۔
جس کے جواب میں رستم شاہ نے کہا کہ یہ قبائلی عمائدین کے جرگے کی مدد سے ہی ہو سکتا ہے ۔کچھ اہم قبائلی عمائدین پر مبنی ایک جرگہ بنایا جائے اور ان کی گارنٹی پر ہی معاملات آگے بڑھائے جائیں اور جو ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیں تو ان کےلئے عام معافی کا اعلان کیا جائے ۔
کیا اس میں امارات اسلامی افغانستا ن کا بھی کوئی تعلق ہے؟
اس سوال پر رستم شاہ مہمند نے کہا کہ امارات اسلامی کے تعاون سے رابطے ہو سکتے ہیں لیکن وہ گارنٹر نہیں ہو ں گےوہ صرف سہولت کار کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تجزیہ کارکی رائے انتہائی اہم ہے خصوصا وہ جو ایسے پراسس کا ماضی میں حصہ رہ چکےہوں لیکن اہم نقطہ جس کی طرف رستم شاہ مہمند نے اشارہ کیا کہ ماضی میں بھی سویلین حکومت بات چیت کرکےمعاملات حل کرنا چاہتی تھی لیکن ایسا ہو نہیں سکااور ایسے کیا عوامل تھے جنومں نے ایسا ہونے نہیں دیا اب کی بار اس پر نظر رکھنی ہو گی۔
تحریر: فرزانہ علی (بیوروچیف پشاور)
ٹوئٹر: @farzanaalispark
Comments are closed on this story.