'جب طالبان نے موسیقی کو حرام قرار دے دیا تو پھر وہاں ہمارے لئے کیا بچا؟'
تحریر: فرزانہ علی
موسیقی سے وابستہ افراد کی مثال ایک پھول کی طرح ہے۔ اس کو پیار سے لے کر چلنا پڑتا ہے بصورت دیگر وہ مرجھا جاتا ہے۔ یہی حال ہمارا ہے، یہ نفرت اور دھتکار ہمیں افسردہ کر دیتی ہے۔
13سال بعد ایک بار پھر دیارِ غیر میں پناہ لینے والے افغان گلوکار اور موسیقار رفیع حنیف کو افغان طالبان کی کابل آمد کی رات کا ذکر اب بھی افسردہ کر دیتا ہے، جب وہ ایک شادی کی تقریب میں گانا گارہے تھے کہ انہیں طالبان کے کابل پر قبضے کی خبر ملی۔ وہ گھر پہنچے اور خاندان کے افراد کے ساتھ مشوہ کیا کہ اب کیا کیا جائے، کیونکہ وہ ایک موسیقار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور گھرانے کے کئی افراد کا تعلق موسیقی سے تھا۔
رفیع نے بتایا کہ میرے کزن نے کہا طالبان موسیقی کے خلاف ہیں، وہ ہمیں نہیں چھوڑیں گے اس لئے یہاں سے چلے جانا ہی مناسب ہے۔ اور یوں رات گئے انہوں نے کابل چھوڑ دیا۔ کابل اڈے سے گاڑی لے کر قندھار کی طرف روانہ ہوئے صبح چار بجے قندھار پہنچے۔ دو گھنٹے وہاں گاڑی بدلنے میں لگے۔ راستے میں سب بند تھا پانی کی ایک بوتل تک نہیں ملی۔ صبح کی سفیدی نمودار ہوئی تو سپن بولدک روانہ ہوئے، بارڈر پر بے تحاشہ رش تھا۔
بچوں اور خواتین کے ساتھ جس طرح رفیع کے خاندان نے سرحد پار کی یہ بیان کرتے کرتے ان کا لہجہ تلخ ہو گیا۔ انہوں نے بتایا کہ چمن پہنچتے پہنچتے 12 بج گئے، وہاں کھانا کھایا اور پھر کوئٹہ پہنچے۔ دو روز کوئٹہ میں گزارے اور پھر اگلی منزل کی طرف چل پڑے۔ کئی اور پناہ گزین افغان باشندوں کی طرح رفیع کے خاندان کو اس 24 گھنٹوں میں کئی افراد نے لوٹا، کبھی گاڑی کے کرائے کے نام پر تو کبھی سرحد پار کرنے کے دوارن۔ معمول کے اس سفر میں جہاں پندرہ ہزار میں آسانی سے آپ اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں اب کی بار پناہ کے اس سفر میں لاکھو ں ادا کرنا پڑے۔
رفیع نے اپنے بچپن اور لڑکپن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد بہت اچھا ہارمونیم بجاتے تھے اور انہوں نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد سے ہی لی۔ سکول کے بعد پہلے وائلن بجانا سیکھا، پھر ہارمونیم، طبلہ اور پھر گٹار سیکھا۔ 30 سال سے موسیقی کے ساتھ قائم رشتے کا ذکر کرتے ہوئے رفیع نے بتایا کہ جس کا اوڑھنا بچھونا موسیقی ہو۔ جس کا دل میوزک کے ساتھ دھڑکتا ہو وہ کوئی اور کام کیسے کرے گا۔ جب تک میری سانس چل رہی ہیں موسیقی نہیں چھوڑوں گا۔
رفیع دوسری بار اپنا وطن چھوڑنے پر دکھی ہیں۔ اس سے قبل 1992 سے 2008 تک وہ پناہ گزین کی حیثیت سے اپنی مٹی سے دور رہے۔ جب افغانستان میں حالات بہتر ہوئے تو وہ اپنے گھر لوٹ گئے، لیکن 15اگست کے بعد ایک بار ماضی جیسے خوف نے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ رفیع کا کہنا تھا کہ جب طالبان نے موسیقی کو حرام قرار دے دیا تو پھر ان کے لئے وہاں کیا بچا۔
رفیع نے بتایا کہ موسیقی سے وابستہ افراد میں سے اکثریت نے کابل چھوڑ دیا ہے۔ جو ابھی بھی پھنسے ہوئے ہیں وہ بھی نکلنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ طالبان نے عام معافی کا اعلان تو کیا ہے لیکن خبریں اس کے مخالف آرہی ہیں اس لئے اعتبار مشکل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ طالبان نے ان کے دفترپر لگے بورڈ توڑ دئیے جبکہ ان کے سٹوڈیو میں پڑے موسیقی کے آلات بھی غائب کر دئیے گئے، جس کی مالیت بارہ تیرہ ہزار ڈالرز تک تھی۔ دوسری طرف کئی جگہوں پر آلات موسیقی توڑ دئیے گئے۔ اب ٹی وی پر صرف مذہبی پروگرام اور بحث مباحثے چلتے ہیں۔ ریڈیو پر بھی گانے بند ہیں۔
طالبان کی طرف سے موسیقی کے شریعت کے خلاف ہونے کے فیصلے پر رفیع نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر موسیقی شریعت کے خلاف ہے تو یہ اپنی گاڑیوں میں اور موبائل پر گانے کیوں سنتے ہیں۔ یہ سنیں تو ٹھیک لیکن ہم گائیں تو شریعت کے خلاف ہے یہ عجیب بات ہے۔
اس تحریر کی مصنفہ فرزانہ علی ہیں جو آج نیوز پشاور کی بیورو چیف ہیں۔
Comments are closed on this story.