Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

یہ کیا ہو رہا ہے؟ آپ کو وردی کس لئے پہنائی ہے؟ کسی کا احساس ہی نہیں، چیف جسٹس

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں ہزارہ برادری ٹارگٹ کلنگ لاپتہ افراد...
شائع 30 ستمبر 2021 02:18pm

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں ہزارہ برادری ٹارگٹ کلنگ لاپتہ افراد ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے آئی جی بلوچستان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ آپ کو وردی کس لے پہنائی ہے ؟کسی کا احساس ہی نہیں، پولیس انتظار کرتی رہتی ہے کوئی ان کا چائے پانی کرے تو یہ کارروائی کریں، کس قدرناانصاف کا کاروبار چلا رکھا ہے،ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے ہزارہ برادری ٹارگٹ کلنگ از خود نوٹس کی سماعت کی،ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان اورآئی جی بلوچستان عدالت میں پیش ہوئے۔

آئی جی بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ ہزارہ برادری کے اغواء شدہ چاروں لوگ بازیاب ہوچکے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان لوگوں کو اغواء کس نے کیا تھا؟کون ان کو لےکرگیا؟ آپ نےکیا کام کیا ہے؟یہ توخود واپس آگئے ہیں۔

بازیاب شخص نے کہا کہ ہمارے مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں، ہمارے اکاؤنٹس منجمد ہیں،تنخواہیں نہیں مل رہیں، ہمیں شناختی کارڈز کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سےاستفسارکیا کہ نادراتعاون کیوں نہیں کر رہا؟ ہم سیکرٹری داخلہ کوطلب کرلیتے ہیں۔

ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا کہ چارگمشدہ افراد کی بازیابی پرایف آئی آرکا اندراج کیا گیا ، کوئٹہ سےبازیاب ہونےوالے چاروں افرادعدالت میں موجود ہیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان نے بازیاب شہری سے سوال کیاکہ آپ کو کس نے اغوا ءکیا تھا؟ جس پر بازیاب شہری کا کہنا تھا کہ اغوا ءکاروں کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے شناخت نہیں کرسکتا۔

جسٹس گلزار احمد نے دوبارہ سوال کیا کہ کیا بازیاب شہری خود اپنے گھر واپس آئے؟سوال پر شہری نے سر ہلاکرہاں میں جواب دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پولیس نے گمشدہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئی کارروائی نہیں کی، بازیاب شہری خوف کی وجہ سےاغوا ءکاروں کےنام نہیں بتا رہے، بازیاب شہری کہتے ہیں نام بتادیئے تو ایک بارزندہ واپس آگئے دوبارہ نہیں آسکیں گے، بازیاب شہریوں کوریاستی مشینری پربھروسہ ہی نہیں۔

بازیاب شہری نے کہا کہ اغواء کاروں نے 3گھنٹے گاڑی میں گھمانے کے بعد ایک جگہ چھوڑ دیا ،اغواء کاروں نے جہاں چھوڑاوہاں سے لفٹ لے کر گھر آئے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 3گھنٹے غائب رہنا کون سی جبری گمشدگی ہے؟ آپ کہہ رہے ہیں 3گھنٹے گھما پھرا کرچھوڑگئے۔

عدالتی سوال پر بازیاب شہری نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ ہم 3سال سے زائد عرصہ گمشدہ رہے، اغواء کاروں نے چھوڑتے وقت گاڑی میں بے وجہ گھمایا۔

چیف جسٹس نے آئی جی بلوچستان کو مخاطب کرتےہوئے کہا کہ آئی جی صاحب یہ صوبے میں کیا ہو رہا ہے؟ 3سال تک اغوا ءرہنے والوں سے اغوا ءکاروں کی شناخت نہیں کراسکے، یہاں تو سارا معاملہ ہی الٹا ہے، سیکریٹری داخلہ کو بلائیں ،نادرا کے معاملے پر جواب دیں۔

کوئٹہ سے لاپتہ شہری کی اہلیہ عدالت میں پیش ہوئیں اور بتایاکہ ان کے شوہر 2013 سے لاپتہ ہیں ،مشکوک شخص کو پولیس نے رہا کردیا۔

چیف جسٹس نے آئی جی بلوچستان پربرہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ یہ کیا ہو رہا ہے؟جرم کے بعدتفتیش کادورانیہ محدودہوتاہے، 7 سال سے ایک شخص لاپتا ہے پولیس نے کچھ کیاہی نہیں۔

آئی جی بلوچستان نے کہا کہ 2013 کے بعد 3 سال کیس لیویزکے پاس رہا،لیویزپولیس کاادارہ نہیں،جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ کیس 3 سال لیویزکے پاس رہاپھرآپ کے پاس آیاتوکیا کرلیاآپ نے؟پولیس کی تفتیش میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے، کیا معلوم ہے تفتیش کس چڑیا کا نام ہے؟ ۔

آئی جی بلوچستان نے جلد بازیابی کی کوشش کا مؤقف اپنایا تو چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ خاک کوشش کی ہے پولیس نے اب تک،ملزم عدالت کاپسندیدہ بچہ ہوتاہے پولیس کانہیں،آپ کووردی کس لےش پہنائی ہے؟آپ کو کسی کا احساس ہی نہیں ،آپ اس وردی کالحاظ نہیں کرتے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے مزید کہا کہ پولیس کوجوکام سونپاگیا ہے وہ نہیں کرتے کچھ اورکرنے لگ گئے ہیں، کس قدر ناانصافی کاکاروبار چلا رکھا ہے، ملک کوتباہی کے دہانے پرلاکھڑا کیا ہے، تفتیش ٹھیک نہ ہونے کے باعث جوملزم ہمارےپاس آتاہے بری ہوجاتا ہے۔

ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان نے لاپتہ شخص کے اہلخانہ سے تعاون کا بتایا تو چیف جسٹس نے کہا شہریوں کواعتبار آئے گا توتعاون کریں گے،جرم کے شواہد 24 گھنٹے میں غائب ہوجاتے ہیں،پولیس انتظار کرتی رہتی ہے کوئی ان کا چائے پانی کرے تو یہ کارروائی کریں۔

عدالت نے8 سال سے لاپتہ علی رضا کوآئندہ سماعت پر پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت نےکہا کہ ہزارہ برادری کو پاسپورٹ کے حصول میں مشکلات کا ازالہ کیا جائے، بلوچستان میں ہر برادری کا تحفظ یقینی بنایا جائے،کیس کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کر دی گئی۔

Chief Justice

Supreme Court

اسلام آباد

Hazara community

Target Killing

gulzar ahmad