طورخم سے کابل تک.... آخری قسط
تحریر: فرزانہ علی
کابل میں ہماری دوسری رات تھی۔اس قیام کے دوارن کئی لوگوں سے ملاقات ہوئی جس میں مرد اور خواتین شامل تھیں لیکن جہاں ورکنگ وویمن کے خیالات اور احساسات کو جاننا ضروری تھا وہاں سوچا کیوں نا گھریلو خواتین کی رائے بھی لی جائے۔اس مقصد کےلئے ایک گھر کے اندر جاکر خواتین سے بات کرنے کی ٹھانی اور ایک لحاظ سے یہ فیصلہ اچھا ثابت ہوا کیونکہ وہ کچھ جاننے کو ملا جو ورکنگ وویمن کہنے سے تھوڑا ہچکچا رہیں تھی۔شناخت سامنے نہ لانےکےوعدےپردرشیلہ نے اپنا دل کھول کر میرے سامنے رکھ دیا۔کیبل کی بند ش سے مالز کے سنسان ہونے اور پھرقندھار اور قندوز کی سچائیاں۔
"طالبان کے بارے میں رائے ہے کہ وہ بدل گئے۔کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتی ہیں؟"
"آپ کا دوسرا روز ہے یہاں سڑکوں اور گلی کوچوں میں گھوم رہی ہیں ۔۔آپکو کیا لگا؟"
انہوں نے اُلٹا مجھے سے سوال کردیا۔
"میرے لئے تو یقینا مشکل تھا لیکن میں یہاں رہنے والوں کی رائے جاننا چاہتی ہوں."
"نہں بدلے۔بس تھوڑا سا رک رک کر قدم اُٹھا رہے ہیں تاکہ دنیا انکو بدلا ہوا محسوس کر سکے."
"کیا آپ 15 اگست کے بعد باہر نکلیں؟"
"ہاں ایک بار گئے تھے."
"تو کیسا لگا تھا؟"
"ہمارے علاقے میں بہت سے طالبان ہیں اس لئے خوف تو تھا لیکن بہر حال گاڑی میں چکر لگا کر واپس آگئے۔"
"آپ کی ایک بچی ہے کیا اس کا سکول کھل گیا؟"
"جی کل سے کھلا ہے ۔یہ پرائیویٹ سکول میں پڑھتی ہے لیکن چونکہ یہ چوتھی جماعت میں پڑھتی ہے اس لئے اسکا سکول کھل گیا لیکن چھٹی سے اوپر والے بچوں کی کلاسیں ابھی بند ہیں."
"وہ کیوں؟"
"بڑے بچے ہیں نا۔مخلوط تعلیم کی ابھی اجازت نہیں ملی؟"
"اور سرکاری اسکول؟"
"وہاں بھی یہی صورتحال ہے ۔چھٹی تک کھلا ہے باقی بعد میں."
درشیلہ نے اچانک کہا "میں آپ سے ایک بات پوچھوں؟"
"جی ضرور!"
"یہ آپ کا وزیر اعظم عمران خان جب آیا تو اس نے کہا تھا کہ وہ مدینہ کی ریاست بنائے گا وہاں تو بنائی نہیں لیکن یہاں بنا دی۔"
"انہوں نے تو نہیں بنائی۔یہ تو آپ کے لوگ ہیں جو 20 سال سے جدو جہد کر رہے تھے۔" میں نے مسکراتے ہوئے اُسکو دیکھا.
"لوگ تو ہمارے ہیں لیکن۔۔" بات یہاں تک ہی پہنجی تھی کہ کابل گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اُٹھا.
"یہ کیا ہے؟" میں نے خاتون کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا.
"لگتا ہے پنج شیر فتح ہو گیا!!!"
میں نے ایک دم سے اپنا موبائل اٹھایا اور اپنے ایک افغان صحافی کو کال ملائی.
"جی بہن کوئی خدمت!" دوسری طرف سے آوز آئی.
میں نے ایک دم پوچھا "یہ فائرنگ کیوں ہو رہی ہے کیا کوئی پنج شیر کی خبر ہے؟"
"خیال ہے لیکن تصدیق نہیں ہو رہی ہے ۔۔میں رابطے میں ہوں جیسے ہی کچھ پتہ چلتا ہے آپکو بتا دوں گا."
"مہربانی."
اس دوران فائرنگ کی شدت اس قدر تھی کہ درشیلہ کی ۱۱ سالہ بیٹی جو ہمارے ساتھ ہی کمرے میں موجود تھی اس نے اپنا سر گھٹنوں میں دے دیا۔
"بچی شاید ڈر رہی ہے۔" میں نے اسکی ماں کو دیکھا.
"ہمارے بچے ذہنی مریض بن گئے ہیں کھبی دھماکے۔کھبی فائرنگ ۔سب دیکھتے اور سنتے ہیں اور پریشان ہو جاتے ہیں۔"
اس دوران اس نے بیٹی کو تسلی دی کہ ابھی سب ٹھیک ہو جائے گا۔کچھ نہیں بس تھوڑی سی فائرنگ ہے۔
لیکن یہ تھوڑی سے فائرنگ نہیں تھی ۔فائرنگ کی شدت اور دورانیہ بڑھنے لگا۔اسی دوران میرے موبائل کی گھنٹی بجی اور دوسری طرف افغان صحافی نے بتایا کہ پنج شیر کے ایک ضلع تک رسائی کی بات ہو رہی ہے جبکہ طالبان فی الحال اسکی تصدیق نہیں کر رہے ہیں۔ہاں البتہ ذبیح اللہ مجاہد کی طرف سے فائرنگ بند کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔اگر مزید کوئی اطلاع آئی تو آپ سے رابطہ کروں گا۔
میں نے ٹوئٹر دیکھا تو پاکستانی میڈیا پنج شیر فتح کر چکا تھا۔سرخ سکرینیں اور بھانت بھانت کی بولیاں۔
درشیلہ نے بھی موبائل پر پاکستانی چینل کی لائیو نشریات لگالیں۔
"لیں جی۔یہاں بیٹھے ہوئے تصدیق نہیں کر رہے اور آپ کے ہاں کام ختم ہوگیا۔"
درشیلہ مسکراہٹ میں وہی طنز تھا جو کچھ دیر پہلے وزیر اعظم صاحب کی بات کرتے ہوئے مجھے محسوس ہوا۔
افغان میڈیا دیکھیں وہ کیا کہہ رہا ہے۔میں نے استفسار کیا.
اس نے موبائل پر کچھ میڈیا ہاوس اور نیوز ایجنسیز کی سائیٹ دیکھیں لیکن خاموشی ہی نظر آئی۔
"کچھ نہیں ہے۔ہمارے ہاں تب ہو گا جب ہو گا۔" وہ ہنس پڑی .
"مطلب ہوگا۔"
"ہاں ظاہر ہے ہو گا تو سہی کیونکہ جہاں سب ہو گیا تو یہ کیسے رہے گا؟"
ایک سادہ سی عورت جس نے کچھ جماعتیں پڑھ رکھی تھیں لیکن روسیوں کی شکست سے دو سال قبل پیدا ہونے والی درشیلہ جو مجاہدین ،طالبان اور امریکا کے آنے اور واپسی تک کے ہر دور کی گواہ تھی وہ سب جانتی تھی۔انٹرنیٹ پر بھی پوری گرفت رکھتی تھی ۔کبھی پاکستان تو کبھی کابل ۔میکہ قندوز کا۔۔ایسی خاتون سے کیا پوشیدہ تھا۔
میں نے اُس سے پوچھا۔۔"آپ کو کیا لگتا ہے یہ نظام چلا لیں گے؟"
"ہاں شاید کچھ عرصہ تو ہو جائے لیکن جنکو ساتھ نہ لیا وہ اپناکام بھی کریں گے.ہمارے یہاں علاقہ لینا مشکل نہیں ہوتا لیکن معاملات کا تسلسل مشکل ہوتا ہے اورانکے بہت مسائل ہیں ۔اب خواتین سمجھدار ہوگئیں ہیں انہیں حقوق اور حصہ چاہیئے ۔اگر انہوں نے نہیں دیا تو مشکل ہو جائے گی ۔دوسری طرف بڑی بچیاں پڑھنا چاہتی ہیں آگے بڑھنا چاہتی ہوں لیکن وہ بھی گھروں میں بند ہوگئیں ۔تو یہ سارے مسائل حل کرنے ہونگے ۔ابھی تو لوگ چپ ہیں لیکن یہ خاموشی زیادہ دیر نہیں رہے گی۔"
باتیں کرتےکرتے رات کا ایک بج گیا۔صبح مجھے اسکولز میں رپورٹنگ کرنی تھی اس لئے ہم نے سوچا اب سو جانا چاہیے ۔بےتحاشہ فائرنگ کے بعد گہرے سکوت نے ماحول کو پرسرار سا بنا دیا تھا۔
صبح ناشتہ کرتے ہی ہم خوشحال خان علاقے کی طرف چل پڑے جہاں پاس پاس دو سرکاری اور ایک پرائیویٹ سکول تھا۔پہلے میں پرائیوٹ اسکول میں گئی ۔کیمرہ مین اور رپورٹر کو گاڑی میں رکنے کا کہا کہ اگر اجازت ملی تو آپکو بلاؤں گی۔اسکول کے پرنسپل مرد جبکہ ٹیچرز خواتین اور مردوں دونوں ہی تھے۔
سلام دعا کے بعد میں نے اپنا تعارف کروایا اور آنے کا مقصد بھی بتا دیا۔
انہوں نے مدعا سننے کے بعد بہت نرمی سے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ وڈیو بیان ممکن نہیں لیکن ویسے ہم آپکے سوالوں کے جواب دے دیں گے۔
"لیکن وڈیو کیوں نہیں؟"
"اسکی دو وجوہات ہیں ایک تو ہم اس سکول میں ملازم ہیں مالک کوئی اور ہے جو اس وقت یہاں نہیں ہے ۔دوسرا چونکہ ابھی امارات اسلامی کی پالیسی کلیئر نہیں اور انکے بیانات بھی روز بدل رہے ہیں اس لئے ہم کچھ کہہ کر اپنی مشکلات بڑھانا نہیں چاہتے۔"
"تو صرف بات کرلیتے ہیں۔"مجھے سمجھوتہ ہی کرنا پڑا.
"جی ضرور۔"
"اسکول کب کھولا اور کیا پوزیشن ہے؟"
"ہمارا سکول 12ویں کلاس تک ہے لیکن ہم نے کل سے صرف چھٹی تک کلاسیں شروع کیں ہیں کیونکہ باقی کی ابھی اجازت نہیں."
"کیا آپ کے ہاں مخلوط نظام تعلیم ہے؟"
"جی۔اس لئے فی الحال بند ہے "
میں نے خاتون ٹیچر سے پوچھا کہ کیا زندگی میں کوئی تبدیلی آئی۔
اس نے ہنس کر پرنسپل کو دیکھا اور کہا "آپ مجھے دیکھیں اور میرے لباس کو سب تبدیل ہے۔گھر سے نکلتے ہوئے ڈر بھی لگتا ہے لیکن ملازمت چھوڑ نہیں سکتی کیونکہ گھر چلانا ہے۔"
وہاں سے نکلی تو کچھ فاصلے پر آمنے سامنے سرکاری سکول کی عمارتیں نظر آئیں۔
کچھ کلاسیں ہو رہی تھیں لیکن اکثر کمرے بند تھے ۔خواتین ٹیچرز کلاسوں میں پڑھا رہی تھیں ۔میں نے مدعا بیان کیا تو انھوں نے بتایا کہ ہمیں تو کل سکول سے بتایا گیا کہ چھٹی تک کی کلاسوں والے اساتذہ اور طلبا آجائیں تو ہم آگئے۔
انھوں نے بھی تقریبا وہی باتیں بتائیں جو پرائیویٹ سکول کی ٹیچر کہہ چکی تھی ۔لیکن یہاں کی اساتذہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ 15سالوں میں اسکول آنے والی بچیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے جو افغانستان جیسے ملک کے لئے بہت مثبت بات تھی۔ہم اُمید کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رہے کیونکہ کوئی بھی رکاوٹ ہمیں پھر پیچھے کی طرف دھکیل دے گی جو ہم نہیں چاہتے۔
اسکول کے بعد ہم پہنچے فارماسوٹیکل کپمنیز کے مالکان اور تاجروں کے پاس جن کا کاروبار مسلسل تنزلی کا شکار تھا۔
ایک تاجر نے بتایا کہ اس کو گزشتہ ایک ہفتے میں 17فیصد نقصان اٹھانا پڑا۔مارکیٹ بند ہے بینکوں کے اپنے مسائل ہیں پیسہ بند ہو گیا ہے۔
"آپکے وفد کی کوئی بات چیت ہوئی کسی ذمہ دار سے؟"
"جی اور دھمکی بھی ملی کے اگر کچھ خلاف بات کی تو شریعت کے مطابق سزا ہو گی۔"
"کیا مطلب خلاف کیسے؟مارکیٹ کا چلنا تو ملک کے فائدے میں ہے کہ مارکیٹ چلے گی تو ملک چلے گا."
"یہ تو آپ کا اور میرا خیال ہے نا.انہیں تو وہ چاہیئے جو وہ چاہ رہے ہیں اور مخالف آواز یا سوال کی اجازت نہیں."
"ویسے انہوں نے تو عامی معافی کا بھی اعلان کر رکھا ہے تو کسی کے خلاف کاروائی کا تو سوال نہیں اُٹھتا."
"عام معافی کا مطلب عام آدمی سے ہے لیکن ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔بس کسی کو خبر دینے کی اجازت نہیں."
تاجر نے بتایا کہ اگر ایک آدھ سال میں معاملات بہتر نہ ہوئے تو وہ اپنا کاروبار تاجکستان یا دوبئی شفٹ کرلیں گے اور یہی خیال اکثر کا ہے۔
وہاں سے آتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ معیشت کی بہتری کےلئے ملک کی تاجر برادری کو اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے لیکن یہاں اس طبقے کو بھی ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے جو کہ یقینا مارکیٹ پر منفی اثر ڈالنے کا سبب بنے گا۔
ایک اور بات جو وہاں میں نے محسوس کی وہاں افغانستان کا وہی جھنڈا لگا تھا جو 15 اگست سے پہلے تھا تو میں نے پوچھا آپ نے جھنڈا نہیں بدلا۔
"کیوں بدلیں؟" ایک ناراض سے آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرلیا.
"اصل میں نئے حکمرانوں کا تو نیا جھنڈا ہے تو اس لئے پوچھاِ."
"ہوسکتا ہے انکا ہو لیکن افغانستان کا یہی جھنڈا ہے اور رہے گا۔" لہجے کی تلخی نے مجھے چونکا دیا.
ہم مارکیٹ سے نکلے تو پتہ چلا کہ شہر میں کچھ خواتین نے اپنے حقوق اور پنج شیر پر حملے کے خلاف مظاہرہ کیا ہے جس کو منتشر کر دیا گیا ہے۔
مجھے درشیلہ کی بات یاد آگئی.
"ابھی تو لوگ چپ ہیں لیکن یہ خاموشی زیادہ دیر نہیں رہے گی" اورپھراگلے روز سکوت ٹوٹ گیا اور پھر دنیا نےوہ دیکھا جس سےبچنےکی کوشش کی جارہی تھی۔سیکڑوں خواتین کابل کی سڑکوں پر ایسے نعرے لگاتی نظر آئیں جنھیں ہم سکرین نہ دے سکے۔
پاکستان واپسی پر کابل کے بازاروں سے گزرتے ہوئے درودیوار کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی پہلے روز جس دیوار پرسوشل میسج کے ساتھ خاتون اور بچی کا عکس تھا اب اُس دیوار پر سفید ی کی جارہی تھی اور سفید دیوار پر لکھا جارہا تھا۔
"شہدا کے خون کا سیلاب قبضہ کرنے والوں کو بہا لے گیا۔"
اس تحریر کی مصنفہ فرزانہ علی ہیں جو آج نیوز پشاور کی بیورو چیف ہیں۔
ٹوئٹر: @farzanaalispark
Comments are closed on this story.