طور خم سے کابل تک... قسط دوم
تحریر: فرزانہ علی
کابل کایہ تیسرا سفرتھا۔اس سے قبل 2011اور 2014میں کابل جانا ہوا لیکن پہلے جانے اور اب کے جانے میں زمین آسمان کا فرق نظر آیا۔وہ کابل جس کے شہر نو میں ہر طرف آپ کو ایک زندگی نظر آتی تھی اب وہ خوف کے سائے میں سانسیں لے رہی تھی۔ایک محفوظ ہوٹل کے اندر بھی ساتھی آپ کو احتیاط سے چلنے کا مشورہ دیتے نظر آئے۔رات کو کھانے کےلئے نکلے تو 2014 کا کابل ڈھونڈنے لگی کہ جب ریسٹورانٹ میں جگہ لینے کےلئے انتظار کرنا پڑتا تھا لیکن اب اکثر ریسٹورانٹ گاہکوں کا انتظار کرتے نظر آئے۔
ایک عجیب سی خاموشی تھی جس میں کئی سوال تھے جن کے جواب مجھے تلاشنے تھے اور اسی تلاش میں نکلنے کی خواہش میں صبح کی سفیدی نمودار ہوتے ہی بستر چھوڑ دیا۔ٹیریس پر کھڑے ہوکر سامنے پہاڑ پر بنے گھروں میں رہنے والے مکین اور سڑک پر چلتے اکا دکا افراد کے چہرے پھر سوالیہ نشان نظر آئے۔ناشتے کے بعد موبائل لئے شہر نو پارک کی طرف چل پڑی کیونکہ وزیرستان ،مہمند ،باجوڑ ،خیبر اور سوات کے بے گھر افراد کو کور کرتے کرتے بے گھری کے دکھ سے کافی آشنا ہو چکی تھی اس لئے سب سے پہلے ان کو سننا چاہتی تھی.جو ایک بڑا سوال بنے کابل میں موجود تھے۔
پارک جانے سے پہلے ساتھیوں نےبتایا وہ پاکستانی میڈیا کو پسند نہیں کرتےاس لئےذرا دھیان رکھئیے گا۔پارک میں ایک طرف قندوز دوسری طرف تخار اور تیسری طرف بلخ کےلوگ رہائش پذیر تھے۔ایک خاتون صحافی ہوتے ہوئے جہاں کئی مشکلات ہیں وہاں کئی فائدے بھی ہیں آپکو خواتین تک رسائی مل جاتی ہے جس سے آپ وہ بھی جان جانتے ہیں جو مرد حضرات اکثر مصلحت کے تحت چھپا لیتے ہیں یہی میرے ساتھ بھی ہوا۔خواتین کے ساتھ بیٹھ کر ان سوالوں کے جواب بھی حاصل کر لئے جو ان آئی ڈی پیز کی کابل میں موجودگی کو مشکوک بنا رہے تھے۔قندوز کی خاتون سے جب میں نے پوچھا کہ آپ نے اپنا گھر کیوں چھوڑا تو انہوں نے بتایا ہمارے گاؤں میں لڑائی شروع ہوئی تو کچھ ایسے واقعات ہوئے جن کی وجہ سے ہم خوف زدہ ہوگئے اور گھر بار چھوڑ کر یہاں آگئے۔
کیسے واقعات؟؟
میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کے لڑائی کے دوارن کچھ افراد نے کچھ گھروں میں گھس کر خواتین کی بے حرمتی کی یا زبردستی اُٹھا کر لے گئے جس کی وجہ سے ہم ڈر گئے اس لئے راتوں رات وہاں سے نکل آئے۔
"وہ کون لوگ تھے جو اس طرح کے کام کر رہے تھے؟" میرے اس سوال پر چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد جواب ملا "معلوم نہیں۔"
مجھے اندازہ تھا کہ اس کا مطلب یہی تھا کہ مزید اس موضوع پر بات نہیں کرنی۔
ایک بیوہ خاتون نے بتایا کہ اسکا ایک بیٹا جنگ میں مارا گیا دوسرا لاپتہ ہے جبکہ چار بچوں کے ساتھ وہ ایک ماہ سے اس کھلے آسمان تلے پڑی ہے۔
"آپ نے اپنا گھر کیوں چھوڑا؟"
جواب ملا "اس لئے کہ جب طالبان اور حکومت میں لڑائی ہو رہی تھی تو راکٹ ہمارے گھروں پر گرتے تھے میرے گھر پر بھی گرا جس سے ہم ڈر گئے۔بیوہ عورت اور کر بھی کیا سکتی تھی بس علاقے والوں کے ساتھ نکل آئی لیکن یہاں اب کھانے کو ترس رہے ہیں۔پانی نہیں واش روم جانے کے لئے 5روپے دینے پڑتے ہیں کوئی اللہ کا بندہ آتا ہے تو کچھ دے جاتا ہے."
"تو آپ واپس گھر کیوں نہیںچلی جاتیں ۔اب تو امن ہو گیا ہے؟"
"اچھا واقعی امن ہو گیا؟!"
"کیوں آپکو کوئی شک ہے؟"
"اب تم کو کیا کہوں! بس تم اتنا کرو کسی کو کہو کہ ہمارے مسئلے حل کرے اور ہمیں تحفظ دے."
میں نے شکریہ ادا کر کے واپسی کےلئے قدم اُٹھائے تو انہوں نے پوچھا "تم ہماری مدد کرو گی نا؟"
میں نے اُسے تسلی دی کہ دیکھیں میں آپ کی آواز ان اداروں تک پہنچا سکتی ہوں جو آپکی مدد کر سکتے ہیں اور یہ میں کردوں گی۔
500خاندانوں کی آنکھیں مجھ پرجیسے جم سی گئیں۔کوئی اپنا فون نمبرایک کاغذ کے ٹکرے پر لکھ کر مجھے دے رہا تھا تو کوئی بار بار مدد کی یقین دہانی چاہتا تھا۔رنگ برنگی چھوٹی بڑی چادروں سے بنیں دیواریں اور چھتیں اور ان میں پڑے بے سروسامان یہ انسان جنہیں گزشتہ40سال سے ہر دہائی میں ایک نئے سفر کا سامنا کرنا پڑتا ہے کبھی ملک کے اندر تو کھبی سرحد کے اس پار جہاں 40 سال بعد بھی وہ مہاجر ہیں۔
کام ختم کرنے کےبعد ہم اپنے ہوٹل واپسی کے راستے پر چل پڑے ہوٹل نزدیک ہونے کی وجہ سے پیدل سفر کررہے تھے تاکہ راستے میں بھی کچھ فوٹیج بنالیں لیکن بار بار ایک معصوم ہاتھ میرے عبایا کا کونا پکڑتا اور میرے قدم روک دیتا۔میں مڑکر دیکھتی تو ایک بچہ یا بچی ہاتھ میں کاغذ کا چھوٹا سا ٹکرا لئے کھڑا ہوتا اور کہتا یہ بھی لےلو۔ہمیں بھی مدد چاہیئے۔ہوٹل کے گیٹ تک پہنچتے پہنچتے میری مٹھی ان کاغذ کے ٹکروں سے بھر گئی جو ہمارے لئے تو کاغذ کے ٹکڑے تھے لیکن کسی کےلئے روٹی اور کسی کے لئے چھت یا دوائی تھے۔
ہماری دوسری اسٹوری 2014میں کابل میں خواتین کےلئے بنایا گیا پارک تھا جس میں خواتین کےلئے ریسٹورانٹ جہاں خواتین ہی کام کرتی تھیں۔جم ،بزنس وویمن کےلئے بنائے گئے دفاتر اور دکانیں جہاں خواتین ہی شاپ کیپر اور خریدار ہوتی تھیں لیکن آج اس کے گیٹ پر بندوق لئے طالب بیٹھا نظر آیا اور اندر سب بند تھا۔
اگلاپڑاؤ بازار میں عام آدمی سے بات چیت تھی جسکا ماننا تھا کہ اگرچہ طالبان کے آنے سے امن تو آگیا لیکن کاروبار اور کاروبار زندگی دونوں کشمکش کا شکار ہیں کیونکہ مستقبل کے بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے اس لئے سرمایہ دار نے ہاتھ روک لیا ہے جبکہ دوسری طرف عام آدمی کے پاس اتنا کچھ نہیں ہے کہ وہ خریداری کرسکے. سب صرف روٹی،سبزی اور ضروریات زندگی کےلئے کچھ خرچ کر رہے ہیں ۔اسکی بات میں وزن تھا کیونکہ ہمیں مالز اور بڑی بڑی دکانیں خالی یا بند نظر آئیں۔
میرےساتھی رپورٹرمارکیٹ میں ایز لائیو کر رہے تھے تو گاڑی کے پاس کچھ نوجوان کھڑے باتیں کرتے نظر آئے اور موضوع نئی آنے والی حکومت اور طالبان کی پالیسیاں تھا۔میں نے ڈرائیور سے کہا کہ ان سے پوچھو کیا یہ مجھے کیمرے پر انٹرویو دیں گے۔دو نے تو انکار کر دیا لیکن ایک راضی ہو گیا۔
یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کا طالب علم اپنے مستقبل سے متعلق تشویش میں مبتلا نظر آیا۔
"آپکی اصل تشویش ہے کیا؟"
"یہ کہ کیا مجھے اس ملک میں اپنی منزل ملے گی۔جو حالات چل رہے ہیں اس میں ہم جیسے پڑھے لکھے ایک نئی سوچ رکھنے والے نوجوان کی جگہ بن پائے گی یہ وہ سوال ہیں جو مجھے پریشان کرتے ہیں۔"
یہی حال دوسرےنوجوانوں کا تھا جو شاید اس نظریے کے دائرے سے باہر تھے جس کی اب ملک میں حکمرانی تھی۔ان نوجوانوں کی تشویش بجا تھی کیونکہ ایک خاص دائرے میں بند لوگوں کےلئے الگ سوچ رکھنے والے ہمیشہ ناپسندیدہ ہی ہوتے ہیں اگر کسی مجبوری یا مصلحت کے تحت جگہ مل بھی جائے تو ذہن کا نہ ملنا جگہ کی تنگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔میں اس احساس سے اچھی طرح واقف تھی کیونکہ میں پختونخوا کی باسی تھی۔
(جاری ہے)
یہ تحریر تین حصوں پر مشتمل ہے جس کا بقیہ ایک حصہ جلد پیش کیا جائے گا۔
اس تحریر کی مصنفہ فرزانہ علی ہیں جو آج نیوز پشاور کی بیورو چیف ہیں۔
ٹوئٹر: @farzanaalispark
Comments are closed on this story.