سپریم کورٹ نےجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کا فیصلہ سنا دیا
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کا فیصلہ سنا دیا، سرینا عیسیٰ کی نظرثانی درخواست منظورکر لی ،6ججز نے حق میں جبکہ بینچ سربراہ عمرعطا بندیال سمیت 4ججز نے اختلاف کیا ، فیصلے کے نتیجے میں ایف بی آر کی کارروائی اور رپورٹ کالعدم ہو گئی۔
سپریم کورٹ کے 10رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کا فیصلہ سنا دیا، جسٹس عمر عطاء بندیال نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
سرینا عیسٰی اور بارکونسلز کی درخواستیں منظورکرلی گئیں ، نظرثانی درخواستیں 4-6کی اکثریت سے منظور کی گئیں ، جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے حکم کے تناظرمیں ہونے والی کارروائی کالعدم قراردے دی گئی۔
بینچ سربراہ جسٹس عمرعطا ءبندیال، جسٹس منیب اختر،جسٹس قاضی امین اورجسٹس سجاد علی شاہ نے درخواستوں کی مخالفت کی۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نظرثانی کیس کافیصلہ محفوظ
اس سے قبل سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائزعیسی نظرثانی کیس کافیصلہ محفوظ کرلیا ،جسٹس عمرعطاء بندیال نے کہاکہ آدھے گھنٹے میں فیصلہ سنا سکتے ہیں اور پھر فیصلہ سننے کی تاریخ بتائیں گے۔
جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائزعیسٰی نظرثانی کیس پر سماعت کی۔
وفاقی حکومت کے وکیل عامر رحمان نےدلائل دیئے اور کہا کہ عدالت نے ریفرنس قانونی نقاط میں بے احتیاطی برتنے پر کالعدم کیا تھا ،عدالت کیس ایف بی آر کو نہ بھجواتی تو وفاقی حکومت نظر ثانی اپیل دائر کرتی،عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ہو چکا اب فیصلہ واپس نہیں لیا جاسکتا، سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتی، صرف غیر معمولی حالات میں کرسکتی، عدالت نے 3سوالات کا جواب مانگا تھا۔
دلائل کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھے گئے 3سوالات پراعتراض اٹھایا اور کہا کہ جسٹس عمرعطا ءبندیال کوڈ آف کنڈکٹ اور حلف کی خلاف ورزی کررہے ہیں، حکومتی وکیل سے ایسا سوال نہیں پوچھنا چاہیئے تھا، جان بوجھ کرنیا مواد عدالتی کارروائی کا حصہ بنایا جا رہاہے۔
جسٹس عمر عطا ءبندیال نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرمیں ان کی اہلیہ کی دستاویزات کا جائزہ لینا غلط ہے، عدالت کو شاید ایک فریق کو سن کر اٹھ جانا چاہیئے۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ جسٹس عمرعطا ءبندیال حکومتی وکیل کے منہ میں الفاظ ڈال رہے ہیں۔
حکومتی وکیل نے کہاکہ سپریم کورٹ کے تین سوالات ہی سارے کیس کی بنیاد ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جواب دیں تو تنازع حل ہوسکتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مداخلت کرتے ہوئے کہاکہ ایف بی آر رپورٹ پر گفتگو کر کے وقت ضائع کیا جا رہا ، جسٹس منظور ملک نے انہیں روکتے ہوئے کہاکہ اردو اور انگلش میں کئی بار سمجھا چکا ہوں، اب لگتا ہے آپ کو پنجابی میں سمجھانا پڑے گا، مہربانی کریں اور بیٹھ جائیں ۔
وکیل نے بتایاکہ ریفرنس کالعدم ہو گیا لیکن تنازع اب بھی برقرارہے، جس کے حل کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل متعلقہ فورم ہے۔
جسٹس عمرعطا ءبندیال نے کہاکہ معاملے کو دبانا اسکوزبردستی ختم کرنے کے مترادف ہے، عدالتی ساکھ کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے کوحل کیا جائے۔
جسٹس عمرعطا ءبندیال نے حکومتی وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ اگرآپ ان 3سوالات کا جواب مثبت دیں گے تو جسٹس فائز جوابدہ ہیں، اگر جوابات منفی دیں گے تو بات ختم ہو جائے گی۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے 3سوالات کے جوابات دینے سے انکارکیا، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہاکہ سوالات کا جواب دینے سے انکارنہیں کیا بلکہ سوالات پراعتراض اٹھایا تھا۔
سرینا عیسیٰ نے جسٹس عمرعطا ءبندیال اور جسٹس منیب اختر سے ان کی اور اہلخانہ کی جائیدادیں پبلک کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
وکیل وفاقی حکومت نے کہاکہ سپریم کورٹ میں کیس ہونے کی وجہ سےایف بی آر نے کچھ نہیں کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لطیفہ سنانے کی کوشش کی تو جسٹس منظور ملک نے روک دیا ، دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے 10رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے کہ آدھے گھنٹے میں فیصلہ سنا سکتے ہیں اور آدھےگھنٹےبعد یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ فیصلہ کب سنانا ہے؟۔
Comments are closed on this story.