Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

جسٹس فائز عیسیٰ کیس: سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان تلخ جملوں ‏کا تبادلہ

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نظرثانی کیس کی...
اپ ڈیٹ 22 اپريل 2021 03:26pm

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران بینچ میں شامل ججز کے درمیان تلخ جملوں ‏کا تبادلہ ہوا،جسٹس مقبول باقر کی جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منیب اختر سے تلخ کلامی ہوئی،جس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ساتھی ججز کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دے دیا۔

جسٹس عمر عطا ءبندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نظرثانی کیس سماعت کی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ آف شور پراپرٹی تسلیم شدہ حقیقت ہے، ایک جج پر حرف آنا پوری عدلیہ پر حرف آنے کے برابر ہے، باضابطہ سماعت کا طریقہ کار کا تعین کرنا عدالت کا کام ہے، تاہم سرینا عیسی کیلئے متعلقہ فورم ایف بی آر ہی تھا ۔

جسٹس قاضی فائز نے حکومت پر کیس لٹکانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ حکومت جسٹس منظور ملک کی ریٹائرمنٹ تک کیس لٹکانا چاہتی ہے ، جس پر عامر رحمان نے شکوہ کیا ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس قاضی فائزعیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس اکثریتی ججز نے خارج کیا تھا، گھر میں بیٹھی جج کی فیملی کخلا ف کارروائی شروع ہو گئی، ایف بی آر نے تحقیقات عدالتی حکم کی روشنی میں شروع کیں ۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئےکہا کہ کسی ایسے کیس کی قانونی مثال دیں کہ کیس خاوند کخلا ف ہو اور کارروائی اس کی اہلیہ کخلایف شروع ہو جائے۔

دوران سماعت ایک لمحہ پر کمرہ عدالت نمبر ایک کا ماحول تلخ ہو گیا،جسٹس منیب اختر او رجسٹس مقبول باقرآپس میں الجھ پڑے ۔

جسٹس مقبول باقر نےعامر رحمان کو دلائل مختصر رکھنے کی ہدایت کی تو جسٹس منیب اختر نے ایک سوال پوچھنا چاہا تو جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ میری بات میں مداخلت نہ کریں۔

جسٹس منیب نے کہاکہ سوال پوچھنا چاہ رہا ہوں، یہاں کوئی ریس تو نہیں لگی ہوئی ، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نےکہاکہ آپ کسی کو روک نہیں سکتے، انہیں بات کرنے دیں۔

جسٹس مقبول باقر نے پینسل زور سے میزپر پٹختے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کسی سینئر کی بات میں مداخلت کا یہ طریقہ نہیں ہے، یہاں دھونس زبردستی نہیں چلے گی، کوئی کسی خاص وجہ سے تاخیر چاہتا ہے تو الگ بات ہے۔

جسٹس عمرعطاء بندیال نے ساتھی ججز کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے 10منٹ کیلئے سماعت میں وقفہ کر دیا۔

سماعت دوبارہ ہونے پر جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ جب پانی نہ پی سکیں تو تازہ ہوا میں سانس کافی ہوتا ہے، روزے کی وجہ سے ہم بھی تازہ ہوا میں سانس لے کر آئے ہیں ،جسٹس مقبول باقر بینچ کی محبوبہ ہیں ۔

جسٹس منظور ملک نے بار بار مداخلت پر جسٹس قاضی فائز عیسی کو بیٹھنے کی تلقین کی۔

جسٹس عمر عطا ءبندیال نے کہاکہ وقت محدود ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو مؤقف دینے سے روکیں ،ججز وضاحت چاہتے ہیں تو سوال بھی کریں گے ہم جذباتی نہ ہوں، یہ حساس ترین کیس ہے۔

بعدازاں عدالت نے جسٹس قاضی فائزعیسی نظرثانی کیس کی سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی۔

Supreme Court

islmabad

Justice Qazi Faez Isa

judges