حکومت کے انتخابی اصلاحات کے اعلان پر اپوزیشن کی منفرد شرائط
وفاقی حکومت نے ملک میں ایک بار پھر انتخابی اصلاحات لانے کا اعلان کرتے ہوئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم اپوزیشن نے ’منفرد‘ شرائط عائد کرتے ہوئے کسی بھی اصلاحاتی عمل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔
مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ ’سپیکر اپوزیشن سے معافی مانگیں۔ حکومت پریزائڈنگ افسران غائب کرنے، سینیٹ میں کیمرے لگانے اور حکومتی ارکان کے ذریعے قائد حزب اختلاف بنوانے سے توبہ نہیں کرتی تو ہم کسی کمیٹی میں جانے کو تیار نہیں ہیں۔‘
پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل سپیکر ہاؤس میں حکومتی وزرا نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے ملاقات کی۔ ملاقات کرنے والوں میں سید فخر امام، فواد چوہدری اور ڈاکٹر بابر اعوان شامل تھے۔ اس ملاقات میں قومی اسمبلی کے اجلاس کو بامعنی بنانے کے لیے حکمت عملی پر غور کیا گیا۔
سپیکر آفس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق حکومتی وزرا نے ایوان کا ماحول سازگار بنانے کے لیے سپیکر کو یقین دہانی کروائی۔
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ ’قومی اسمبلی کے اجلاس میں قانونی اور انتخابی اصلاحات پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔ انتخابی اصلاحات کے لیے حکومت اپوزیشن کو ہر طرح کا فورم مہیا کرنے کے لیے تیار ہے۔‘
’انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن انتخابی اصلاحات کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اصلاحات کے حوالے سے تمام جماعتوں سے بات کروں گا۔‘
اسد قیصر نے مزید کہا کہ ’اپوزیشن اور حکومت انتخابی اصلاحات پر اپنی تجاویز دیں۔ ہمیں ساتھ مل کر انتخابی اصلاحات پر بات کرنی چاہیے تاکہ عوام کا انتخابی عمل پر اعتماد بحال ہو سکے۔‘
دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔ جس کی صدارت سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کی۔
اجلاس کے بعد سپیکر کی جانب سے انتخابی اصلاحات پر ردعمل دیتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ’اسد قیصر بتائیں وہ حکومت کے سپیکر ہیں یا سب کے؟ سپیکر بخوبی سمجھتے ہیں کہ وہ اپوزیشن کا اعتماد کھو چکے ہیں۔‘
سابق وزیراعظم نے سپیکر قومی اسمبلی سے معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اپوزیشن اب انکی کسی بات کو سننے اور کسی کمیٹی میں جانے کو تیار نہیں۔ سپیکر کو چاہیے کہ اپوزیشن سے معافی مانگیں۔ جب ان باتوں پر عمل ہو گا تو ہاؤس چلے گا۔‘
شاہد خاقان عباسی نے ڈسکہ اور سینیٹ انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس ملک کو کون سی انتخابی اصلاحات چاہئیں۔ پہلے توبہ کریں کہ پریذائڈنگ آفیسر نہیں اٹھائیں گے، ووٹ چوری نہیں کریں گے۔‘
’توبہ کریں کہ سینیٹ میں کمیرے نہیں لگائیں گے، یہ توبہ کریں حکومت کے سینیٹرز لے کر اپوزیشن لیڈر نہیں بنائیں گے۔‘
شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ ’لیڈر آف ہاؤس آئیں اور بتائیں انہیں کیا انتخابی اصلاحات چاہیں؟ جس ملک کا وزیراعظم اپوزیشن کو گالیاں دے وہاں کیا انتخابی اصلاحات ہوں گی۔‘
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے نجی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں کہا کہ ’انتخابی اصلاحات کا حصہ بننے کا فیصلہ اگرچہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہو گا لیکن جس سپیکر کی سربراہی میں سینیٹ میں ڈاکہ ڈالا گیا، کیمرے نصب کیے گئے، اس کی سربراہی میں یا تجویز پر انتخابی اصلاحات کیسے ہو سکتی ہیں؟‘
انہوں نے کہا کہ ’مارچ کی شام چیئرمین سینیٹ کے عہدے کی مدت ختم ہوگئی تھی۔ ڈپٹی سپیکر بیمار تھے۔ پارلیمنٹ کی عمارت کی حفاظت کی ذمہ داری سپیکر کی تھی۔‘
فیصل کریم کنڈی نے مزید کہا کہ ’سپیکر یا تو تسلیم کرلیں کہ وہ اس چوری میں ملوث تھے یا پھر بتا دیں کہ کس نے چوری کی اور کیمرے لگائے۔‘
’اس کے لیے تو کسی کمیٹی کی بھی ضرورت نہیں صرف ویڈیو کو ریوائنڈ کرکے دیکھنا ہے کہ کون سینیٹ ہال میں کیمرے لگاتا رہا ہے۔ جب تک اس چوری کا حساب نہیں ملتا انتخابی اصلاحات کا حصہ بننا ممکن نہیں ہے۔‘
Comments are closed on this story.