سینیٹ کادنگل کل سجنےکو تیار،تحریک انصاف کااکثریتی جماعت بننے کا امکان
اسلام آباد:سینیٹ کا دنگل کل سجنے کو تیارہے، حکمران جماعت تحریک انصاف کا 28 نشستوں کے ساتھ اکثریتی جماعت بننے کا امکان ہے،11 مارچ کو کل 52 سینیٹرز جبکہ مسلم لیگ ن کے سب سے زیادہ 17 سینیٹرز اور پی ٹی آئی کے 7 سینیٹرز ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔
03 مارچ کو بڑے ایوان کا بڑا معرکہ ہونے جارہا ہے،جس کیلئے جوڑ توڑ جاری ہے، تحریک انصاف کے 28 نشستوں کے ساتھ اکثریتی جماعت بننے کا امکان ہے۔
ایوان بالا میں اس وقت ن لیگ سب سے بڑی جماعت ہے جس کے سینیٹرز کی تعداد 30 ہے، پیپلز پارٹی کے 21، تحریک انصاف 14، بلوچستان عوامی پارٹی کے 9، آزاد 7 اور ایم کیو ایم کے 5 ممبر ہیں۔
11 مارچ کو سندھ اور پنجاب سے 11،11جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے 12،12سینیٹر ریٹائر ہو رہے ہیں، سب سے زیادہ مسلم لیگ نون کے 17 سینیٹرز ، پیپلز پارٹی کے 8، تحریک انصاف 7، آزاد اور ایم کیو ایم کے 4 ، 4سینیٹر اپنی مدت مکمل کر رہے ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے 3،جمعیت علمائے اسلام ، نیشنل پارٹی اور پختونخواملی عوامی پارٹی کے 2،2، بی این پی،جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ایک سینیٹر ریٹائرڈ ہو رہا ہے۔
ممکنہ نتائج کے مطابق تحریک انصاف 28 نشستوں کے ساتھ سینیٹ کی اکثریتی جماعت بن سکتی ہے، پیپلز پارٹی 19 سینیٹرز کے ساتھ دوسری، مسلم لیگ ن 18 نشستوں کے ساتھ تیسری اور بلوچستان عوامی پارٹی کے 12 نشستوں کے ساتھ چوتھی بڑی جماعت بننے کے امکانات ہیں۔
ایوان کو گڈ بائے کرنے والوں میں بڑے نام راجہ ظفر الحق، پرویز رشید، پروفیسر ساجد میر، سلیم ضیا، فاروق ایچ نائیک، رحمان ملک، سلیم مانڈوی والا ، سسی پلیجو اور شیری رحمان شامل ہیں۔
اس کے علاوہ شبلی فراز، سراج الحق، ستارہ ایاز، تاج آفریدی، مولانا عطا الرحمان، عبدالغفور حیدری، سرفراز بگٹی، خوش بخت شجاعت ، محمد علی سیف بھی شامل ہیں۔
سینیٹ انتخاب کیلئے بیلٹ پیپر پرانتخابی نشان نہیں امیدوارکا نام ہوگا
سینیٹ انتخاب کیلئے بیلٹ پیپر پرانتخابی نشان نہیں امیدوارکا نام ہوگا ، ہرووٹرکیلئے عددی لحاظ سے 3ترجیح ہوں گی۔
سینیٹ انتخابات خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ہوں گے، ووٹرکوفراہم کئے جانے والے بیلٹ پیپرزپر امیدواروں کا انتخابی نشان نہیں ہوگا بلکہ حروف تہجی کے تحت ناموں کا اندراج ہے ،ووٹرترجیحی بنیادوں پرووٹ کاسٹ کرے گا ۔
عددی لحاظ سے 3ترجیحات ہوں گی،ہرووٹراپنی ترجیح کے مطابق اپنے پہلے ، دوسرے اور تیسرےامیدوار کا انتخاب کرے گا ،کامیاب امیدوارکے اضافی ووٹ دوسرے ترجیحی امیدوارمیں تقسیم کردیئے جائیں گے۔
سیاسی جماعتوں ،امیدوار،الیکشن ایجنٹ اورپولنگ ایجنٹس کے ضابطہ اخلاق بھی جاری کئے جاچکےہیں ، جس کے تحت ووٹرپولنگ بوتھ میں موبائل نہیں لے جاسکے گا۔
سرکاری دفاتریاملازمین سے مدد لینے پرپابندی ہوگی ،بیلٹ پیپرپرموجود سرکاری نشان کومسخ کرنا بدعنوانی تصورہوگا،عدلیہ، افواج اورالیکشن کمیشن کہ تضحیک سے اجتناب کرنا ہوگا ، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پرالیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت کاروائی ہوگی۔
سینیٹ کا ادارہ کب قائم ہوا؟
1973کے آئین میں 2ایوانی مقننہ یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ پرمشتمل پارلیمانی طرز حکومت کی منظوری سے ایوان بالا کا ادارہ قائم ہوا، اس ادارے کا مقصد تمام وفاقی اکائیوں کو مساوی نمائندگی دے کر چھوٹے صوبوں کے محرومی اور استحصالی خدشات کو دور کرنا ہے۔
ایوان بالا کی ابتداء 45 اراکین سے ہوئی،1977 میں بڑھاکر63 پھر1985میں87 اور 2002 میں 100کر دی گئی۔
اراکین نے2010 میں18ویں ترمیم کے ذریعہ ایوان بالا میں4 نشستیں اقلیتوں کیلئے مختص کرنے سے تعداد 104ہو گئی۔
ایوان بالا 2بار مارشل لا ءکی زد میں آیا 5 جولائی1977 سےلے کر21مارچ1985 تک اور دوسری مرتبہ 12اکتوبر1999 سے 23مارچ2003 تک ایوان بالا نمائندگی سے محروم رہا۔
فاٹا کو خیبرپختونخوامیں ضم کرنے کے بعد اس کیلئے مختص8نشستیں بتدریج ختم کی جا رہی ہیں، پہلے مرحلے میں اس بار4 نشستیں ختم ہو ں گی جس کے بعد اراکین کی تعداد 100 بچ جائے گی اور 3سال یعنی2024 میں یہ تعداد 96 رہ جائے گی۔
ایوان بالا اب تک 8 چیئرمین منتخب کر چکا ہے، وسیم سجاد 4 مرتبہ مسلسل منتخب ہو کر سب سے زیادہ عرصہ چیئرمین شیپ اپنے نام کرچکے ہیں ۔
Comments are closed on this story.