Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

نجی اسٹیل مل منافع میں ہے تو سرکاری اسٹیل مل کا کیا مسئلہ ہے؟سپریم کورٹ

اسلام آباد: پاکستان اسٹیل ملز کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ...
شائع 09 فروری 2021 03:28pm

اسلام آباد: پاکستان اسٹیل ملز کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں نے ریمارکس دیئے ہیں کہ نجی اسٹیل مل منافع میں ہے تو سرکاری اسٹیل مل کا کیا مسئلہ ہے؟اسٹیل ملز پر روزانہ کا خرچہ بلاوجہ ہو رہا ہے ،وفاقی وزرا ءبتائیں اسٹیل ملز کےساتھ کیا کرناہے؟ کسی فیکٹری کا پہیہ نہیں چل رہا صرف پیہے جا رہا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے پاکستان اسٹیل ملز کیس کی سماعت کی ،سیکرٹری نجکاری کمیشن حسن ناصر جامی عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ وفاقی وزراء بتائیں اسٹیل مل کے ساتھ کیاکرناہے؟اسٹیل مل پر روزانہ کا خرچہ بلاوجہ ہورہاہے،سرکار کا پیسہ بانٹنےکیلئے نہیں ہوتا؟ ۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے سیکرٹری نجکاری کمیشن حسن ناصر جامی سے استفسار کیا کہ کیوں نہ اسٹیل مل کاروز کا خرچہ آپ سےریکورکریں؟سیکرٹری صاحب آپ کی ناکامی ہےجواسٹیل مل پرخرچہ ہورہاہے ،آپ کو اس پیسے کے جانے کا کوئی درد نہیں؟ کسی قابل آدمی کو آنے دیں آپ گھر جائیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ سیکرٹری نجکاری صاحب آپ کوکچھ معلوم ہی نہیں، آپ کواتنا علم نہیں کہ اسٹیل مل کا حجم کتنا ہے تونجکاری کیا کریں گے، ایک سال میں آپ کویہ بھی معلوم نہیں کہ اسٹیل مل کے کتنے پروجیکٹ چل رہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تمام صنعتیں بیٹھ گئیں تماشا مچایا ہوا ہے،پی آئی اے،ہیوی مکینکل کمپلیکس اورشپ یارڈ بند پڑے ہیں،کسی فیکٹری کا پہیہ نہیں چل رہا صرف پیسہ جا رہاہے،سیکرٹری صعنت و پیداوارکوکچھ بھی معلوم نہیں،پاکستان کےبحری جہازچائنہ میں بن رہےہیں،اسٹیل مل کو چلائیں۔

جسٹس مظاہرعلی نقوی نے ریمارکس دیئے کہ نجی اسٹیل مل منافع میں ہےتوسرکاری اسٹیل مل کا کیا مسئلہ ہے؟۔

وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ سی پیک کے تحت چائینزکمپنی کواسٹیل مل حوالے کرنے کا آپشن تھا، نجکاری کمیشن نے اب اپنا کام کرنا ہے۔

وزیرنجکاری میاں محمد سومرو نے کہا کہ نجکاری پرکافی پیشرفت ہوچکی ہے، کوئی بھی ساڑھے 300ارب کے واجبات ادا کرنے کوتیارنہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئےکہ سی ای اوکے گھر کا گھیراؤہوتو حکومتی رٹ ناکام ہوگی، مکمل طورپربے بسی کا عالم ہے۔

وکیل پاکستان سٹیل مل شاہد باجوہ نے کہا کہ اسٹیل مل کو صرف 40 افسران کی ضرورت ہے، چائنیز ماہرین کے مطابق بل چلانے کیلئے 500 ملین ڈالردرکارہوں گے،جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی نے کہا کہ یہ بتائیں اسٹیل مل کیسے چلے گی؟۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی سی ایل اورکے الیکٹرک میں کسی نے سرمایہ کاری نہیں کی، حکومت کے پاس اتنا پیسہ ہی نہیں کہ مل چلا سکے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نجکاری کرنے میں550 سال لگ جائیں توکیا فائدہ ہے،جس پروزیر نجکاری نے جواب دیا کہ واجبات ختم ہونے کے بعد ہی نجکاری کا عمل مکمل ہوگا۔

اسد عمر نے بتایا کہ بنیادی طور پر اسٹیل مل کو لیز پر دیا جائے گا اور ملکیت حکومت کے پاس ہی رہے گی۔

وفاقی وزیر نجکاری محمد میاں نے عدالت میں کہا کہ اسٹیل مل کے اثاثوں کی مالیت 100 ملین ڈالر ہے، ستمبر یا اکتوبر میں اس کی بولی لگنے کا امکان ہے، واجبات ادا کرکے اسٹیل مل کو پرکشش بنائیں گے۔

سپریم کورٹ نے اسٹیل مل کے حوالے سے منصوبے کو تحریری طور پر پیش کرنے کا حکم دیا۔

Chief Justice

Supreme Court

اسلام آباد

justice gulzar ahmed