افغان طالبان کا امن معاہدے کے حوالے سے امریکہ کو واضح پیغام
ٹرمپ دور حکومت میں پاکستان کے تعاون سے امریکہ افغانستان میں جاری جنگ کو ختم کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا. امن معاہدے کے بعد اقتدار افغانیوں کو تھمانے کے بعد امریکہ نے اپنی فوج کے انخلا کی تیاری کی اور اس وقت دو سے تین ہزار کے قریب امریکی فوج افغانستان میں موجود ہیں جو جلد وہاں سے روانہ ہو جائیں گے۔
مگر امریکی حکومت کی سربراہی تبدیل ہونے کے بعد سے امریکہ افغانستان امن معاہدے میں دراڑیں آنا شروع ہو گئی ہیں اور امریکہ کا لہجہ تبدیل ہونا شروع ہو گیا ہے، جس پر افغان طالبان نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
افغان طالبان نے معاہدے کی خلاف ورزی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا میں قائم ہونے والی نئی حکومت فروری 2020 میں طے پانے والے امن معاہدے سے پیچھے ہٹی تو پھر بڑی جنگ ہوگی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان طالبان نے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کو امن معاہدے سے دستبرداری پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاہدے کے خاتمے سے بڑی جنگ کا آغاز ہوگا۔
امریکی نشریاتی ادارے کا دعویٰ ہے کہ دی افغانستان سٹڈی گروپ نے ایک رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ نئی امریکی انتظامیہ افغانستان سے فوج واپس بلانے سے قبل طالبان کو تشدد میں کمی لانے کے لیے سختی سے پابند کریں۔
اپنی رپورٹ میں سٹڈی گروپ نے خبردار کیا کہ اگر طالبان کو تشدد میں کمی لانے کے لیے مجبور کیے بغیر فوجیوں کا انخلا شروع کیا گیا تو افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے القاعدہ بھی متحرک ہو سکتی ہے۔
ادھر طالبان نے سٹڈی گروپ کی رپورٹ کا جواب دیتے ہوئے اپنی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بیان میں تشدد میں کمی لانے کی معاہدے کی شرط پر عمل درآمد نہ کرنے کے الزام کو مسترد کر دیا۔
طالبان نے دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا تشدد میں کمی نہ لانے کا بہانہ کرتے ہوئے امن معاہدے سے پیچھے ہٹا تو پھر بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے جس کی تمام ذمہ داری امریکا پر عائد ہوگی۔
Comments are closed on this story.