اسرائیل خلیج میں ایرانی ’ریڈ لائنز‘ پار کرنے سے باز رہے، تہران کی تنبیہ
ایرانی دارالحکومت تہران سے پیر اٹھائیس دسمبر کو موصولہ رپورٹس کے مطابق ایران نے تنبیہ کی ہے کہ واشنگٹن میں 20 جنوری کو انتقال اقتدار کے قریب آتے جارہے وقت پر اگر کسی بھی طرح کی کوئی 'مہم جوئی‘ کی گئی، تو تہران اس کا بھرپور جواب دے گا۔
تہران میں ملکی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے زور دے کر کہا کہ امریکی فوج کی طرف سے کسی بھی 'مہم جوئی‘ کی صورت میں ایران اپنا مکمل دفاع کرے گا۔ تہران کے اس موقف سے صرف ایک ہفتہ قبل امریکی بحریہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ اس نے اپنی ایک ایٹمی آبدوز خلیج کے علاقے میں تعینات کر دی ہے۔ اس آبدوز کے خطے میں بھیجے جانے کو ماہرین نے ایران کے خلاف امریکی عسکری طاقت کے نئے مظاہرے کا نام دیا تھا۔
چند روز قبل اسرائیلی میڈیا نے بھی یہ اطلاع دی تھی کہ ایک اسرائیلی آبدوز نہر سوئز پار کر کے خلیج فارس کے علاقے کی طرف سفر میں ہے۔ ان رپورٹوں کی تاہم اسرائیلی حکومت نے تصدیق نہیں کی تھی۔ اس تناظر میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے پیر کے روز ایک آن لائن پریس کانفرنس میں کہا، ''ہر کوئی جانتا ہے کہ ایران کے لیے خلیج فارس کتنی اہم ہے۔‘‘
امریکی بحریہ نے گزشتہ ہفتے اس آبدوز کی خلیج کے علاقے میں تعیناتی کا باقاعدہ اعلان کیا تھا
سعید خطیب زادہ نے صحافیوں کو بتایا، ''ہر کوئی جانتا ہے کہ سلامتی، خاص کر قومی سلامتی کے حوالے سے ایرانی پالیسیاں کیا ہیں۔ اور ہر کوئی یہ بھی جانتا ہے کہ اگر ایران کی 'ریڈ لائنز‘ کو پار کیا گیا، تو پھر خطرات کتنے شدید تر ہو جائیں گے۔‘‘
تہران حکومت کی طرف سے اپنے علاقائی حریف ملک اسرائیل پر کئی ایسی کارروائیوں کے الزامات لگائے جاتے ہیں، جن کا مقصد تہران کے مطابق 'ایران کو نقصان‘ پہنچانا ہے۔ اس سلسلے میں تہران کی طرف سے نومبر میں ایرانی جوہری پروگرام کی ذمے دار ایک اہم شخصیت اور معروف ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کے ہدف بنا کر کیے جانے قتل کا ذکر بھی کیا جاتا ہے، جس کے لیے ایران اسرائیل کو قصور وار قرار دیتا ہے۔
اس پس منظر میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، ''ہم نے امریکی حکومت اور خطے میں اپنے دوستوں کو یہ پیغام (تنبیہ) بھجوا دی ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ کو اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں اور وائٹ ہاؤس سے رخصتی سے محض چند روز قبل کسی بھی طرح کی نئی مہم جوئی کا راستہ اپنانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
Comments are closed on this story.