Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر نے جوڈیشل کمیشن کے ذریعے مبینہ آڈیولیکس کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کردیا۔
اسلام آبادمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر اسدعمر نے کہا کہ نئی آڈیو کو ٹکڑے جوڑ کر تیار کیا گیا ہے، آڈیولیکس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیئے، وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ کی تحقیقات کوئی قبول نہیں کرے گا۔
پی ٹی آئی رہنما نے مطالبہ کیا کہ جوڈیشل کمیشن کے ذریعے مبینہ آڈیولیکس کی تحقیقات کرائی جائے، حقیقت قوم کے سامنے آنی چاہیئے، آڈیو بنانے والے کو تفصیلات کا زیادہ علم تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرہارس ٹریڈنگ کی گئی تو انہوں نے ووٹ کیوں نہیں ڈالا، خبر آئی ہے کہ سیف اللہ نیازی کو سینیٹ سے اٹھالیا گیا ہے، خبر سچ ہے یا نہیں، ابھی تصدیق نہیں کرسکتا۔
اسدعمرنے کہا کہ موڈیز نے پاکستان کو ڈاؤن گریڈ کردیا ہے، پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے، ملک میں فیکٹریز بند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت لانگ مارچ سے خوف زدہ ہے، خوف وہراس پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں، ابھی سے اسلام آباد میں کنٹینرز جمع کرنا شروع کردیے گئے ہیں۔
اسد عمر نے مزید کہا کہ ملکی مسائل کا حل شفاف عام انتخابات ہیں، فیصلہ پاکستان کے عوام کو کرنے دیا جائے۔
فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے سینیٹر سیف اللہ نیازی کو گرفتار کرنے کی تردید کردی۔
سینیٹرسیف اللہ نیازی نے آج سینیٹ اجلاس میں شرکت کی، جس کے بعد پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کی پریس کانفرنس جاری تھی کہ اطلاع ملی سینیٹر سیف اللہ نیازی کو اٹھا لیا گیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے سابق معاون خصوصی ڈاکٹر افتخار دُرانی نے اپنے ٹوئٹ میں اطلاع دی کہ سینیٹر سیف اللہ نیازی کو سینیٹ کے احاطے سے اغوا کرلیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے بھی ان کے گھر کے اوپر حملہ کیا گیا تھا اور ذاتی سامان تحویل میں لیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے بھی ٹوئٹ میں کہا کہ ملک میں اتنی بڑی فسطائیت کبھی نازل نہیں ہوئ اس سے زیادہ توہین پارلیمنٹ کی ہونہیں سکتی، چیئرمین سینٹ غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نوٹس لیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سیف اللہ نیازی پر“ نامنظور“ ویب سائٹ چلانے کا مبینہ الزام ہے یہ ویب سائٹ غیر قانونی فنڈ ریزنگ کے لئے استعمال کی جاتی تھی۔
دوسری جانب ترجمان ایف آئی اے نے سینیٹر سیف اللہ خان نیازی کی گرفتاری کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سیف اللہ نیازی کی گرفتاری کی خبریں بے بنیاد ہیں، انہیں ایف آئی اے کے کسی بھی ونگ نے گرفتار نہیں کیا۔
ادھر ایف آئی اے نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن حامد زمان کو گرفتار کرلیا۔
انصاف ٹرسٹ کے ٹرسٹی حامد زمان کو ایف آئی اے لاہورنے گرفتار کرکے ان کے خلاف درج مقدمے میں تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی ایک اور مبینہ آڈیومنظرعام پرآگئی، لیک آڈیو میں عمران خان نمبر گیم پورا کرنے کے لیے ارکان کی خرید وفروخت پربات کررہے ہیں۔
غیرمصدقہ آڈیو میں عمران خان ہارس ٹریڈنگ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ،”آپ کوبڑی غلط فہمی ہو گئی ہے جناب کہ نمبر گیم پورے ہیں، یہ نمبر ایسا ہے نہیں۔“
بظاہریہ آڈیوعمران خان کے خلاف اپوزیشن اتحاد کی تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے سے قبل کی ہے، جب دونوں جانب سے نمبر گیم پورا کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا تھا اور ارکان کو بھاری رقوم کے عوض حمایت لینے کی خبریں سرگرم تھیں۔
مبینہ آڈیو میں عمران خان کا کہنا ہے کہ ، ”ایسا مت سوچیں کہ سب ختم ہوگیا،اب سےلیکر48 گھنٹےبہت اہم ہیں،اس میں بڑی چیزیں ہورہی ہیں“۔
سابق وزیراعظم کو مبینہ طور پریہ کہتے بھی سنا جاسکتا ہے کہ کئی چالیں چل رہا ہوں جو پبلک نہیں کرسکتے۔
آڈیومیں سُنا جاسکتا ہے کہ ، ”5 میں خرید رہا ہوں ناں، پانچ میرے پاس ہیں، وہ پانچ بہت اہم ہیں، اسے کہیں اگروہ 5 اورکردےنا تو10ہوجائیں گے،تو یہ گیم ہمارے ہاتھ میں ہے“۔
عمران خان کا مزید کہنا ہے کہ،”اس وقت قوم الارم ہے، لوگ چاہ رہے ہیں کسی طرح ہم جیت جائیں ۔ کوئی فکرنہ کرے، یہ غلط ہے یاٹھیک، کوئی بھی حربہ ہو،ایک ایم این اےبھی توڑدیتا ہے ناں توہمیں بڑافرق پڑے گا“۔
اس سے قبل بھی عمران خان کی 2 آڈیولیک ہوچکی ہیں، پارٹ ون اورٹو کے عنوان سے لیک کی جانے والی ان آڈیوزمیں چیئرمین پی ٹی آئی سائفرپرگفتگو کررہے ہیں۔
مزید پڑھیے:ن لیگ کے بعد جمعہ پی ٹی آئی کیلئے بھی“بھاری“
عمران خان کی عدالت پیشی کے موقع پرصحافیوں کے سوالات کے جواب میں وہ ان آڈیولیکس کو اپنے حق میں بہت اچھا قراردیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ،“اب اورکھُل کرکھیلوں گا’۔
نوٹ: آج نیوز اس آڈیو کے مصدقہ ہونے کی تصدیق نہیں کرسکتا۔
پاکستان تحریک انصاف کے ممکنہ لانگ مارچ سے نمٹنے کے لئے وفاقی پولیس نے سیکیورٹی پلان کوحتمی شکل دے دی۔
ذرائع کے مطابق 30 ہزار کے قریب سیکیورٹی اہلکار اسلام آباد کی سیکیورٹی کے فرائض انجام دیں گے۔ پولیس، رینجرز، ایف سی، ایلیٹ فورس اور سندھ پولیس کے اہلکار تعینات ہوں گے۔
سیکیورٹی اہلکاروں کے کھانے، کنٹینرز اور دیگر اخراجات کی مد میں یومیہ تقریبا 15 کروڑ روپے خرچ ہوں گے، وزارت خزانہ اور داخلہ کے حکام کو اخراجات سے متعلق آگاہ کردیا گیاہے ۔
خیبرپختونخواسے لانگ مارچ میں شرکت کے لئے بڑی تعداد میں تحریک انصاف کے کارکنان کی آمد کا امکان ہے۔
وفاقی پولیس کے اعلیٰ حکام نے اسلام آباد انٹرنیشنل ائرپورٹ کو بندرکھنے کی بھی تجویز دے دی۔
اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستوں پر 1300 کے قریب کنٹینرز لگائے جائیں گے، لانگ مارچ کے شرکاء اسلام آباد کے داخلی راستوں پر پہنچ گئے تو اسکول کالجزمیں تعطیلات کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے تمام اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کی جائے گی، پولیس، ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل اسٹاف اور امدادی اداروں کی چھٹیاں منسوخ کردی جائیں گی۔
رہنما (ن) لیگ اور وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری ہوسکتی ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ’فیصلہ آپ کا‘ میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت ملک سیلاب اور معاشی صورتحال کے دو اہم مسائل کا شکار ہے، قوم کے نمائندوں کو مل کر ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا، اب معیشت کی بہتری ایک پوائنٹ ایجنڈا ہونا چاہیے، آرمی چیف کا معیشت سے متعلق بیان دینا خوش آئند ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ہم آئین کی طرف واپس جانا چاہتے ہیں، تحریک عدم اعتماد کے فوری بعد ہمارا اوریجنل ایجنڈا اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات میں جانے کا تھا جب کہ حکومت سمبھالتے ہی شروع کے تین مہینے پاکستان کے ڈفالٹ ہونے کا خطرہ تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سائفر پر تحقیقات منطقی انجام تک پہچنا چاہیے, توشہ خان کے معاملے میں عمران خان نے خود تسلیم کیا تھا جب کہ 190 ملین پائونڈ کا معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے تحقیقات شروع کردی ہیں اور اس کیس میں عمران خان گرفتار ہوسکتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا پراسس ابھی شروع نہیں ہوا ہے، جب جنرل باجوہ وطن واپس آجائیں گے تو اس پراسس کو شروع کیا جائے گا۔
برطانیہ کی نیشنل ایجنسی (این سی اے) نے 2019 میں پاکستانی بزنس ٹائیکون ملک ریاض کے خلاف تحقیقات کیں جن کےنیتجے میں ملک ریاض نے تصفیے کے تحت 190 ملین پاؤنڈ کی رقم برطانوی ایجنسی میں جمع کروائی۔
این سی اے کے مطابق تصفیے سے حاصل ہونے والی یہ رقم پاکستان منتقل کی گئی لیکن یہاں پہنچنے پر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں قومی خزانے میں جمع کروائے جانے کے بجائے سُپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے تحت اقساط میں 460 بلین روپے کی ادائیگی کررہے ہیں۔
نیب کا موقف ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان کی ملکیت 190 ملین پاؤنڈ ملک ریاض کو ہی واپس مل گئے، وفاقی کابینہ نے اس وقت معاملے کو حساس قراردے کرمتعلقہ ریکارڈ بھی سیل کردیا تھا۔ اس حوالے سے ملک ریاض کا این سی اے سے کیا جانے والا معاہدہ بھی پوشیدہ رکھا گیا تھا اورپاکستان میں بھی یہ تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں کہ ریاست کی ملکیت رقم پھرسے ملک ریاض کے استعمال میں کیسےآئی۔
ملک ریاض نے ٹوئٹرپراپنے موقف میں کہا تھا کہ انہوں نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کو 19 کروڑ پاؤنڈ کے مسوی پاکستانی رقم کی ادائیگی کے لیے برطانیہ میں قانونی جائیداد فروخت کی تھی۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ میں نے ابھی ڈنڈا چلایا ہی نہیں اس کے باوجود بھی ڈالر نیچے آنا شروع ہوگیا ہے۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ آج ایکسپورٹرز کے ساتھ مذاکرات ہوئے جس کے تحت حکومت ایسکپورٹرز کو 19 روپے 99 پیسے کے حساب سے فی یونٹ بجلی مہیا کرے گی، ملک کو بر آمدات میں اضافے کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے روپے کو کھلا چھوڑ دیا تھا پھر سب نے دیکھا کیا ہوا، ڈالر کی صحیح قدر200 روپے سے کم ہے لیکن مارکیٹ اس وقت بہتر جار ہی ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ میں نے ابھی ڈنڈا نہیں چلایا کہ میری واپسی ہوتے ہی مارکیٹ نے اپنا کام شروع کردیا، ڈالر کی قدر کم ہونے سے ملکی قرضوں میں 26 سو ارب روپے کمی آئی۔
وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ معاشی ترقی کیلئےسب کو ملکر کام کرنا ہوگا، اسی لئے ہم محدود وسائل میں رہ کر کسانوں، ایکسپورٹرز کی مدد کرنے کو تیار ہیں، ایکسپورٹرز نے 12 فیصد سے زائد شرح پر برآمدات بڑھائیں کیونکہ ملکی برآمدات بڑھ جائے گا تو ہمیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے نہیں پڑیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ مجھے علم ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں، کوئی اسپیس موجود ہے تب ہی کچھ کر رہے ہیں، ایکسپورٹرز کو 10 جنوری 2017 کو پیکج دیا گیا تھا جس کے تحت 10 فیصد بر آمدات بڑھانا تھیں جب کہ اس پیکج کے نتیجے میں 12 فیصد سے زائد کی ایکسپورٹس پڑھیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سفارتی سائفر کو ڈی کوڈ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کے منٹس سازش کے تحت بنائے گئے تھے۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 3 اپریل 2022 کو تحریک عدم اعتماد پرووٹنگ ہونی تھی، سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت تحریک عدم اعتماد کا اجلاس ہو رہا تھا، سابق وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت کے خلاف سازش ہوئی ہے، قاسم سوری نے لکھا ہوا بیان پڑھا اور عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کردیا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ دیر بعد عمران خان نے کہا کہ اسمبلی توڑ رہا ہوں، 20 منٹ بعد صدر نے عمران خان کی سمری منظور کرلی جبکہ گورنر پنجاب کی سمری 20 دن بعد بھی منظور نہیں کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کےعالمی طاقتوں کےساتھ تعلقات خراب کردیئے، غداری اور وطن فروشی کے الزامات لگائے گئے، غداری کےالزام سے زیادہ گھناؤنی سازش نہیں ہوسکتی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران دورمیں بیرونی دنیا کے ساتھ خراب کئے گئے، تعلقات کو درست کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
کسی کی آڈیو لیک کرنی ہوتی تو اپنی آڈیو کیوں لیک کراتے؟
وزیراعظم نے کہا ہے کہ کسی کی آڈیو لیک کرنی ہوتی تو اپنی آڈیو کیوں لیک کرتا، عمران خان نے کہا کہ امریکا کا نام نہیں لینا، سائفر سے متعلق آڈیو لیک کے بعد کوئی شک نہیں رہا کہ سازش کس نے کی۔
شہباز شریف نے کہا کہ سائفر سے متعلق آڈیو لیک کے بعد کوئی شک نہیں رہا کہ سازش کس نے کی، سازش کے تانے بانے عمران خان سے مل چکے ہیں، آڈیو لیک میں انہوں نے کہا کہ امریکا کا نام نہیں لینا، صرف کھیل کھیلنا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ عمران خان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے خود معاہدہ کیا اور اس کی خلاف ورزیاں بھی کرتے رہے، عمران نیازی بار بار کہہ چکا ہے پاکستان سری لنکا بننے جا رہا ہے، یہ سر سے پاؤں تک فراڈیا ہے۔
آرمی چیف کی تعیناتی آئین وقانون کے مطابق ہوگی
ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران دور میں قومی خزانے پر 190 ملین پاؤنڈ کا تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکہ ڈالا گیا جب کہ دوسری جانب برطانیہ میں ہمارے خلاف بنائے گئے کیس میں اللہ نے ہمیں سرخرو کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاک فوج کے نئے سپہ سالار کی تعیناتی آئین و قانون کے مطابق ہوگی، البتہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
شہباز شریف نے کہا کہ مریم نواز کے کیس کا قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں ترامیم سے کوئی تعلق نہیں ہے، مریم کو نیب کی ترامیم سے پہلے کے قانون کے تحت ریلیف ملا۔
برطانیہ سے فنڈز کی واپسی کے معاملے کے تحقيقات پر قومی احتساب بیورو (نيب) ایکشن میں آ گیا، نيب نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کابینہ ارکان کو طلبی کے نوٹس جاری کیے ہیں۔
نیب نے سابق وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے21 ارکان کو طلب کیا ہے۔
اس حوالے سے غلام سرور خان اور مراد سعيد کو 11 اکتوبرکو بلایا گیا ہے، سابق وزیردفاع پرويزخٹک کو 12 اکتوبر کو پيش ہونے کی ہدايت کی گئی جبکہ حماد اظہر اورزبيدہ جلال کو 13 اکتوبر کے لئے طلبی کا نوٹس بھیجا گیا ہے۔
نوٹس میں شفقت محمود اور شيريں مزاری کو 14 اکتوبر کوپيش ہونے کا کہا گیا ہے جبکہ خالد مقبول صديقی اوراعجازاحمد شاہ کو 17 اکتوبرکے لئے پیشی کا نوٹس بھیجا گیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کے بيانات کی روشنی ميں سابق وزیراعظم عمران خان کو طلب کيا جائے گا ۔
یاد رہے کہ وفاقی کابینہ نے رقم سپریم کورٹ میں جمع کرانےکی منظوری دی تھی۔
برطانیہ کی نیشنل ایجنسی (این سی اے) نے 2019 میں پاکستانی بزنس ٹائیکون ملک ریاض کے خلاف تحقیقات کیں جن کےنیتجے میں ملک ریاض نے تصفیے کے تحت 190 ملین پاؤنڈ کی رقم برطانوی ایجنسی میں جمع کروائی۔
این سی اے کے مطابق تصفیے سے حاصل ہونے والی یہ رقم پاکستان منتقل کی گئی لیکن یہاں پہنچنے پر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں قومی خزانے میں جمع کروائے جانے کے بجائے سُپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے تحت اقساط میں 460 بلین روپے کی ادائیگی کررہے ہیں۔
نیب کا موقف ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان کی ملکیت 190 ملین پاؤنڈ ملک ریاض کو ہی واپس مل گئے، وفاقی کابینہ نے اس وقت معاملے کو حساس قراردے کرمتعلقہ ریکارڈ بھی سیل کردیا تھا۔
اس حوالے سے ملک ریاض کا این سی اے سے کیا جانے والا معاہدہ بھی پوشیدہ رکھا گیا تھا اورپاکستان میں بھی یہ تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں کہ ریاست کی ملکیت رقم پھرسے ملک ریاض کے استعمال میں کیسےآئی۔
ملک ریاض نے ٹوئٹرپراپنے موقف میں کہا تھا کہ انہوں نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کو 19 کروڑ پاؤنڈ کے مسوی پاکستانی رقم کی ادائیگی کے لیے برطانیہ میں قانونی جائیداد فروخت کی تھی۔
نیب کی جانب سے پی ٹی آئی کابینہ ارکان کوطلبی کے نوٹس جاری ہونے کے بعد فواد چوہدری نے اپنے ردعمل میں کہا کہ نیب کی طرف سے کابینہ اراکین کو بطور گواہ طلبی کا نوٹس ریاست کی توہین ہے۔
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ کابینہ اپنے فیصلوں کےلئے کسی ادارے کو جوابدہ ہے تو وہ پارلیمان ہے اس فورم کے علاوہ کسی ادارے کا کابینہ اراکین کو طلب کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے، حکومت سے کہتا ہوں اپنے انتقام کے لئے اداروں کا بیڑہ غرق نہ کریں۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی زیرصدارت پنجاب کابینہ کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں کابینہ ارکان نے سوشل میڈیا کے نوجوانوں کی گرفتاری میں پولیس کی ایف آئی اے کو معاونت پرشدید رد عمل کا اظہار کیا۔
ذرائع کے مطابق پنجاب کابینہ نے آئی جی سے پولیس کی معاونت پر وضاحت طلب کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد رات گئے صوبائی حکومت نے کابینہ ارکان کے فیصلے کی روشنی میں وضاحتی خط لکھ دیا۔
ذرائع کے مطابق خط میں کہا گیا ہےکہ آئی جی پولیس تحقیق کریں کہ کیا ایف آئی اے نے ایکشن کی اجازت لی۔
پولیس نے ایف آئی اے کے ساتھ بلا اجازت کیسے گرفتاری اور غیر قانونی کام میں معاونت کی۔
پنجاب کابینہ نے سوال کیا کہ ایلیٹ فورس کی گاڑیاں غیر قانونی آپریشن میں بلا اجازت کیسے استعمال ہوئیں؟ انہوں نے قراردیا کہ پولیس کا کوئی ماورائے قانون ایکشن قابل قبول نہیں ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ عوام نے بھروسہ کرکے نمائندوں کو پارلیمنٹ بھجوایا ہے جن پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ تو پارلیمنٹ جا کر بیٹھیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی کےاستعفوں کی منظوری کے خلاف درخواست پر سماعت کی، اس سلسلے میں پی ٹی آئی اراکین کی جانب سے بیرسٹرعلی ظفرعدالت میں پیش ہوئے۔
بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ اسپیکرقومی اسمبلی نےاستعفے منظورکرلئے مگر رولز کو فالو نہیں کیا گیا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت ہمیشہ کہتی ہے کہ پارلیمنٹ کا احترام ضروری ہے۔
عدالت نے کہا کہ پہلے یہ بتائیں کہ درخواست گزارپارٹی فیصلے کے خلاف جارہے ہیں، اگر درخواست گزارپارٹی فیصلے کے خلاف جارہے ہیں توپارٹی ایکشن لیں گی، شکور شاد کی حد تک عدالت نے فیصلہ دیا تواس کے خلاف پارٹی نے شوکازجاری کیا، آپ نے عدالت کو بتانا ہے کہ یہ پارٹی پالیسی کے خلاف ہیں یا حامی ہیں ؟۔
جس پربیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ درخواست گزاروں میں سے کوئی بھی پارٹی کے خلاف نہیں، درخواست گزار پارٹی پالیسی کے ساتھ ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ کے درخواست گزاروں کو تو پھر پارلیمنٹ واپس جانا چاہیئے۔
عدالت نے کہا کہ شکورشاد کی حد تک عدالت نے اسپیکر قومی اسمبلی کو کوئی ہدایات نہیں دی تھی، عدالت کوبتانا ہوگا کہ درخواست گزار صاف ہاتھوں سے یہاں آئے ہیں، بتانا ہوگا کہ مؤکل واپس پارلیمنٹ جانا چاہتے ہیں اور اپنے علاقے کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیےکہ یہ عدالت اسپیکر قومی اسمبلی کو ہدایات جاری نہیں کرسکتی، عدالت نے شکور شاد کیس میں بھی صرف نظرثانی کا کہا ہے، عدالت کو پارلیمنٹ کا احترام ہے، اس سے قبل بھی ایک پٹیشن دائرکی گئی تھی، کیا یہ سیاسی جماعت کی پالیسی ہے؟ ابھی تک باقیوں کےاستعفے ہی منظور نہیں ہوئے، عوام نے اعتماد کرکے نمائندوں کو پارلیمنٹ بھجوایا ہے۔
جس پر درخواست گزاروں کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ پارلیمنٹ واپس جانا سیکنڈری ایشو ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد نے کہا کہ پھروہ ممبرپارلیمنٹ ہوتے ہوئے اسمبلی کارروائی کا ورچوئل بائیکاٹ کررہے ہیں، آپ اس متعلق سوچ لیں اور بیان حلفی جمع کرائیں، کیا عدالت آنے والے 10 ارکان اسمبلی پی ٹی آئی پالیسی کے حق میں ہیں یا مخالف ؟۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالتیں سیاسی تنازعات حل کرنے کے لئے نہیں ہیں، سیاسی تنازعات کے لئے بہترین فورم پارلیمنٹ ہے، جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مذاق نہ بنائیں، پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی ذمہ داری ہے جن لوگوں نے منتخب کیا ان کی نمائندگی کریں۔
بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ ایک ساتھ استعفے ایک کنڈیشن کے ساتھ دیئے گئے تھے، اسپیکر نے ایک ساتھ استعفے منظور نہ کرکے وہ کنڈیشن ہی ختم کر دی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب استعفی دے دیا گیا تو پھر منظوری اسپیکر کا ہی اختیار ہے، استعفے دینے والا اُس کے بعد اپنی شرائط نہیں لگا سکتا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسارکیا کہ آپ کہہ رہے ہیں ہم سیاسی عدم استحکام بھی پیدا کیے رکھیں گے، پھرآپ کہتے ہیں عدالت آپ کی درخواست بھی سنے؟ جس پر درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ ہم نے یہ بھی کہا ہے کہ ارکان اسمبلی کے استعفے جینون مگر کنڈیشنل تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس عدالت نے آج تک کبھی پارلیمنٹ کو اور نہ ہی کبھی اسپیکر کو ڈائرکشن دی، 75 سالوں سے ہم میں سے کسی نے بھی پارلیمنٹ کا احترام نہیں کیا، صرف پولیٹکل پوائنٹ اسکورنگ کے لئے درخواست پر آرڈر نہیں کرسکتے، بیان حلفی دیں واپس پارلیمنٹ جائیں گے تب ہی سنیں گے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی کی پالیسی کے خلاف توپارلیمنٹ نہیں جائیں گے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بس پھرمعاملہ ہی ختم ہوجاتا ہے، 70سال اس پارلیمنٹ کے ساتھ بہت کچھ ہوگیا ۔
درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ واپس جائیں گے یا نہیں، ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا، یہ بات پارٹی پالیسی پرمنحصر ہے، اگر آپ استعفے منظوری کا آرڈر معطل کردیں تو جا کر اسپیکر سے بات کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ عدالت سیاسی ڈائیلاگ کے لئے تو آپ کو سہولت فراہم نہیں کرے گی، پٹیشنرز کہہ رہے کہ پارلیمنٹ کو نہیں مانتے، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ایسا کبھی نہیں کہا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وہ سیاسی عدم استحکام برقراررکھنا چاہتے ہیں جوملکی مفاد میں نہیں، عدالت اس درخواست کو کل تک ملتوی کرسکتی ہے، آپ پارلیمنٹ جا کراپنی نیک نیتی ثابت کریں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ خالی قراردی گئی نشستوں پرآگے الیکشن بھی ہونے ہیں، اسپیکر نے ڈکٹیشن لے کراپنے مینڈیٹ کے خلاف 11 ارکان کے استعفی منظورکیے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لوگوں نےانہیں منتخب کیا تھاکہ پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی ہو، سیاسی جھگڑوں کوعدالت نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیئے۔
بیرسٹر علی ظفر نے آدھے گھنٹے کی مہلت طلب کرتے ہوئے کہا کہ پٹیشنرز سے بات کرلیتا ہوں پھر بتاتا ہوں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ ایک گھنٹہ لیں اوراس کے بعد ہمیں آگاہ کریں، بعدازاں عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا ۔
لاہور: چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ پاک فوج کا نیا سپہ سالار کوئی بھی آجائے مجھے فرق نہیں پڑتا۔
ایوان وزیراعلیٰ پنجاب میں سینیئر صحافیوں سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آرمی چیف کا تقرر میرٹ پر ہونا چاہیے، باقی نیا آرمی جو بھی آئے مجھے فرق نہیں۔
اسلام آباد کے چاروں اطراف ہماری حکومتیں ہیں، ثنا اللہ کیسے روکے گا
انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کب ہوگا کسی کو تاریخ نہیں بتاوں گا، ہر چیز ریکارڈ ہوتی ہے اسی لئے تاریخ میں نے اپنے تک رکھی ہے اور یہ بات شاہ محمود قریشی کو بھی نہیں بتائی۔
لانگ مارچ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ رانا ثناء اللہ ہمیں کیسے روکے گا کیونکہ اسلام آباد کے چاروں اطراف ہماری حکومتیں ہیں، البتہ ہر کام مذاکرات سے ہوسکتا ہے اور آخر میں تو مزاکرات سے ہی باتیں طے ہوتی ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ سائفر کہیں چوری نہیں ہوا، اس کی ماسٹر دستاویز دفتر خارجہ میں ہوتی ہے، شکر ہے ان لوگوں نے سائفر کو تسلیم تو کیا اور اگر کمیٹی بلاتی ہے تو پوچھوں گا ڈونلڈ لو نے کس کو ہٹانے کا حکم دیا۔