مورخین نے لکھا ہے کہ پانچ سو ستاون ہجری میں کچھ سازشیوں نے ایک مذموم سازش تیارکی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جسم اطہر نکال کر قبضے میں لے لیا جائے اور اس مقصد کیلئے دو نصرانی مدینہ پہنچے اور انہوں نے مدینہ میں یہ ظاہر کیا کہ ان کا تعلق اندلس سے ہے اور وہ مغربی ہیں۔
یہ دونوں باہر مسجد نبوی کے باہر اس مقام پر ٹھرے جہاں سے حضور اکرم صلیٰ علیہ والہ وسلم کی قبرمبارک قریب تھی۔ بظاہر یہ دونوں نصرانی دن بھر نیک و خیر کے کاموں میں مصروف رہتے اور اسطرح انہوں نے وہاں پر خود کو بہت نیک وکار اشخاص کے طور پر متعارف کروالیا ۔
درحقیقت یہ دونوں نصرانی ایک مذموم سازش کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف تھے اور جب لوگ سوجاتے تو یہ نصرانی ایک خفیہ سرنگ کھود رہے تھے اور اس کا قبر نبوی کی طرف تھا اور سرنگ کی کھدائی سے جو مٹی نکلتی یہ دونوں وہ مٹی کبھی قریبی کنویں میں پھینکتے یا پھر کبھی چمڑے کے تھیلے میں بھر کر قریبی قبرستان جنت البقیع میں ڈال آتے اور لوگوں کے سامنے یہ ظاہر کرتے کہ وہ بقیع کی زیارت کو جارہے ہیں۔
جب ان نصرانیوں کو یہ یقین ہوگیا کہ اب وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قبر مبارک کے قریب پہنچ گئے ہیں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جسم اطہر نکالنے کیلئے سازش تیار کرنے لگے کہ اسکو کس طرح منتقل کیے جائیں ۔
ٹھیک انہی دنوں سلطان نور الدین زندگی نے خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی اور خواب میں دیکھا کہ آپ صلیہ اللہ علیہ والہ وسلم دو بھورے آدمیوں کی طرف اشارہ کرکے فرما رہے ہیں کہ اے محمود! مجھے ان دو آدمیوں سے بچاو۔
نورالدین زندگی گھبرا کر اٹھا اور پھر نماز پڑھ کر سوگیا لیکن لگاتار تین مرتبہ پھر یہی خواب دیکھنے پر پریشان ہوگیا اور اپنے وزیر جمال الدین موصلی کو طلب کیا اور اسکو تفصیل سنائی تو اسنے نور الدین زندگی کو فوری طور پر مدینہ منورہ روانہ ہونے کا مشورہ دیا۔
سلطان نوردالدین زندگی نے رات کے بقیہ حصے میں مدینہ منورہ روانگی کی تیاری کی اور بیس آدمیوں کی نگرانی میں بہت سے اونٹ اور مال و متاع لے کر فوری مدینہ روانہ ہوگیا اور اس نے مدینہ منورہ کا دن رات سفر کرتے ہوئے سولہ دن میں طے کیا۔ بعض مورخین لکھتے ہیں کہ سلطان کے سفر میں ایک ہزار اونٹ گھوڑے اور دیگر سواریاں شامل تھیں۔
مدینہ پہنچ کر سلطان نے مسجد نبوی میں نماز ادا کی اور قبر نبوی کی زیارت کے بعد وہیں بیٹھ گیا اور پھر اعلان کردیا گیا کہ سلطان مدینہ میں بنفس نفیس موجود ہیں اور ان کے پاس بہت سارا صدقہ اور اموال ہیں۔ سلطان یہ سارا مال و متاع باشندگان مدینہ میں تقسیم کرینگے اور ان سے ملاقات بھی کرتے جائیں گے۔
اعلان کے بعد محتاج حاضر ہوئے اور اموال تقسیم ہونے لگیں۔ سلطان حاضرین کا معائنہ کرتا جارہا تھا لیکن ان میں کوئی آدمی ان لوگوں کی شباہت سے نہیں ملتا تھا۔ لہذا سلطان نے پوچھا: کیا کوئی ایسا شخص جو مال لینے حاضر نہ ہوسکا ہو۔؟ لوگوں نے جواب دیا کوئی باقی نہیں رہا، البتہ دو مغربی آدمیوں ہیں۔ وہ کسی سے کچھ نہیں لیتے، وہ بہت نیک اور پارسا آدمی ہیں۔ سلطان نے حکم دیا کہ ان کو میرے پاس لے آو۔
لوگوں نے جب ان دونوں کو حاضر کیا تو سلطان دیکھتے ہی پہچان گیا کہ یہ دونوں وہی آدمی ہیں جن کی طرف حضور اکرم صلی اللہ علی والہ وسلم نے اشارہ دیا تھا۔
سلطان نے ان سے دریافت کیا: تم کہاں کے رہنے والے ہو؟
انہوں نے جواب دیا : ہم مغرب کے رہنے والے ہیں۔ حج کی نیت سے آئے تھے اور اس سال مسجد نبوی کے قریب رہنے کا ارادہ ہے۔
سلطان نے جب ان لوگوں سے بارہا اصرار کیا اور وہ ایک ہی بات دہراتے رہےتو سلطان اہل مدینہ کے چند رہائشیوں کیساتھ ان کی رہائش گاہ پہنچ گیا۔
تو لوگوں نے دیکھا کہ ان کے گھر میں بہت سارا مال ہے اور دیوار پر لگی چھجی میں قرآن پاک کے نسخے موجود ہیں۔ سلطان رہائش گاہ کا بغور معائنہ کرنے لگا اور اسنے اچانک رہائش گاہ میں بچھا ہوا قالین اٹھا کر دیکھا تو قالین کے نیچے لکڑی کا تختہ تھا۔ جب تختہ اٹھایا تو اسکے نیچے کھدی ہوئی سرنگ نظر آئی جو سیدھی قبر نبوی کی طرف جارہی تھی اور مسجد نبوی کی دیوار کی حد پار کرچکی تھی۔
جب اہل مدینہ نے یہ منظر دیکھا تو ان پر دہشت طاری ہوگئی کیونکہ ان دونوں اشخاص سے متعلق ان کا اعتقاد نہایت اچھا تھا۔ جب ان مجرموں کی ساری حقیقت بے نقاب ہوگئی تو سلطان نے ان کی گردن قلم کرنے کا حکمنامہ جاری کردیا ۔
پھر سلطان نے حکم دیا کہ حجرہ نبوی کے اردگرد پانی کی سطح تک خندق کھودی جائے اور اس میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے۔ اور سیسہ پگھلا کر پوری خندق بند کردی گئی۔ اس کے بعد سلطان مدینہ سے رخصت ہوکر شام چلا گیا۔