بحرہ مردار کا شمار سمندر کے اس حصے میں ہوتا ہے جہاں کوئی ڈوبتا نہیں ہے اور تیراکی کی صورت میں بھی تیراک لاکھ کوشش کے باوجود اس کی سطح پر ہی رہتا ہے۔ اسکو نمک کی جھیل کے متبادل نام سے بھی پہچانا جاتا ہے اور یہ مشرق میں اسرائیل اور اردن جبکہ مغرب میں فلسطین کی سرحد کو چھوتا ہے۔
بحرہ مردار کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں نمک کی مقدار بھی انتہائی زیادہ ہے ۔اس میں نمک کی آمیزش چونتیس اعشاریہ دو فیصد زیادہ ہے جوکہ دیگر کے موازنے میں نو گنا زائد ہے۔ تحقیق کے مطابق بحرہ مردار کی کثافت ایک اعشاریہ چوبیس لیڑ ہے جوکہ تیرنے کی کثافت کے یکساں ہے اور غالب وجہ یہی ہے کہ جس سے اسکے پانی کی اچھال کی قوت زائد ہوجاتی ہے اور یہاں کوئی ڈوبتا نہیں ہے۔
اگرچہ کہ اب بحرہ مردار عالمی برادری کی توجہ کا مرکز بھی بن چکا ہے اور یہاں پر سیاحوں کی ایک بڑی تعداد بھی دورہ کرتی ہے، لیکن اسکے پانی میں نمک کی مقدار زائد ہونے کی وجہ سے زندگی کی افزائش ممکن نہیں ہے۔
ایکو پیس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بحرہ مردار اب تیزی سے سکڑاو کی جانب گامزن ہے اور ایک سال میں ایک میٹر اوسط سے سکڑ رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہاں سے دیگر علاقوں کو پانی کی ترسیل اور تجارتی مقاصد کیلئے اسکا استعمال ہے۔
Courtesy: wikipedia, EcoPeace Middle East