سائنس دانوں نے کہا ہے کہ اس سال کرسمس کے موقعے پر قطبِ شمالی میں درجۂ حرارت اوسط سے 20 درجے زیادہ تک پہنچ سکتا ہے جو انتہائی غیر معمولی صورتِ حال ہے۔
بی بی سی اردو کے مطابق ماحولیاتی سائنس دانوں نے کہا ہے کہ قطبی علاقوں میں اس گرم موسم کا براہِ راست باعث انسانوں کے ہاتھوں پیدا کردہ ماحولیاتی تبدیلی ہے۔
نومبر اور دسمبر میں درجِۂ حرارت معمول سے پانچ درجے زیادہ تھا۔ اس سے قبل گرمیوں کے موسم میں سیٹیلائٹ سے لی گئی تصاویر سے معلوم ہوا تھا کہ قطبی سمندر میں برف دوسری کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
اوکسفورڈ کے ماحولیاتی تبدیلیوں کے ادارے کی سینئر محقق ڈاکٹر فریڈریکے اوٹو نے بی بی سی کو بتایا کہ 'صنعتی انقلاب سے قبل اس قسم کی گرمی کی لہر بہت شاذ و نادر آیا کرتی تھی یعنی تقریباً ایک ہزار برسوں میں ایک بار۔'
انہوں نے کہا کہ سائنس دان بہت پراعتماد ہیں کہ یہ لہر انسانوں کی پیدا کردہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے آئی ہے۔
'ہم نے مختلف موسمیاتی ماڈلوں اور مشاہدات کا مطالعہ کیا، اور ہمارے تمام طریقوں میں ایک ہی نتیجہ ملا۔ انسانوں کی لائی ہوئی تبدیلی کے علاوہ اس قسم کی گرمی کی لہر کا کوئی اور ماڈل نہیں ہے۔'
پیشگوئی کی گئی ہے کہ کرسمس کے موقعے پر قطب شمالی پر درجۂ حرارت نقطۂ انجماد کے قریب ہو گا۔
توقع ہے کہ شمالی بحرِ اوقیانوس سے اٹھنے والی گرم ہوا قطبِ شمالی تک پہنچ جائے گی، جس سے ایسے بادل تشکیل پائیں گے جو حرارت کو فضا میں تحلیل ہونے سے روکیں گے۔
ڈاکٹر اوٹو کے مطابق اس سے اس قسم کی 'فیڈ بیک دائرہ' وجود میں آ جائے گا جس سے برف مزید کم ہوتی چلی جائے گی۔
'زمین کے گرم ہونے سے سمندری اور زمینی برف کی مقدار کم ہو جاتی ہے، جس سے نیچے زیادہ گہرے رنگ کی مٹی اور پانی سامنے آ جاتے ہیں۔ سفید برف کے مقابلے پر یہ گہرے رنگ کے خطے سورج سے آنے والی زیادہ حرارت جذب کرتے ہیں۔'
امریکی خلائی ادارے ناسا کے سربراہ ڈاکٹر تھورسٹین مارکس کہتے ہیں کہ گرمی کی یہ لہر 'بہت، بہت غیرمعمولی ہے۔'
انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'عجیب بات یہ ہے کہ ہم نے پچھلے دسمبر میں بھی قطب شمالی پر ایسا ہی درجۂ حرارت دیکھا تھا۔'
بشکریہ بی بی سی اردو