سائنس دانوں نے ایک ڈائنوسار کی کھال پر رنگوں کے نمونے دریافت کیے ہیں جو آج کے دور کے جانوروں کے کیموفلاج کی مانند ہیں۔
بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق بہترین حالت میں محفوظ شدہ ایک چینی فاسل سے ظاہر ہوتا ہے اس جانور کے جسم کا نچلا حصہ ہلکے، جب کہ اوپری حصہ گہرے رنگ کا تھا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جانور کسی ایسی جگہ رہتا تھا جہاں روشنی منتشر ہوتی ہے، مثلاً کسی جنگل میں۔
تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے ایک آرٹسٹ کے ساتھ مل کر اس جانور کا تھری ڈی ماڈل تیار کیا۔
یہ تحقیق کرنٹ بایالوجی نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
تحقیق کے شریک مصنف جیکب ونتھر کہتے ہیں کہ اس ڈائنوسار میں کیموفلاج کے نمونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی مدد سے اسے شکاریوں سے چھپنے میں مدد ملتی ہو گی۔
اس ڈائنوسار کا نام سیٹاکوسارس ہے، جس کا مطلب بنتا ہے ’طوطے کی چونچ والا۔‘ وجۂ تسمیہ یہ ہے کہ اس کی چونچ طوطے سے ملتی جلتی ہے۔
اس سے قبل سائنس دانوں نے ڈائنوساروں کے بعض فاسلز میں میلانوسوم دریافت کیے تھے۔ ان غدودوں میں میلانِن رنگ بنتا ہے جو کئی جانوروں کے پروں اور جلد کو رنگ دیتا ہے۔
تحقیق کاروں نے ایک ماڈل بنایا اور پھر رنگوں کے نمونے اس پر منطبق کر کے یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ اس کی مدد سے اس ڈائنوسار کو کس طرح اپنے آپ کو چھپانے میں مدد ملتی ہو گی۔
اس کام میں آرٹسٹ باب نکلز نے ان کی مدد کی۔ وہ کہتے ہیں: ’یہ خاصا مشکل کام تھا، تاہم اب ہم جانتے ہیں کہ یہ ڈائنوسار کیسا دکھائی دیتا تھا۔‘
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ کسی بھی ڈائنوسار کا سب سے درست رنگین ماڈل ہے۔
یہ ڈائنوسار آج سے 13 تا 12 کروڑ سال قبل شمال مشرقی چین میں پایا جاتا تھا۔
بشکریہ بی بی سی اردو