حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ اے آئی چیٹ باٹ ”چیٹ جی پی ٹی“ (ChatGPT) کے باقاعدہ اور زیادہ استعمال کرنے والے افراد میں تنہائی بڑھنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق اوپن اے آئی اور ایم آئی ٹی میڈیا لیب نے مشترکہ طور پر کی ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کو لانچ ہوئے دو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور یہ عالمی سطح پر مقبول ہو چکا ہے، جسے ہر ہفتے 40 کروڑ سے زائد افراد استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ پلیٹ فارم ایک اے آئی ساتھی کے طور پر متعارف نہیں کرایا گیا، لیکن کچھ صارفین اس کے ساتھ جذباتی طور پر جُڑ جاتے ہیں، جس کی بنیاد پر یہ تحقیق کی گئی۔
ماہرین نے تحقیق کے لیے دو طریقے اپنائے۔ پہلے مرحلے میں، لاکھوں چیٹس اور آڈیو تعاملات کا تجزیہ کیا گیا، جبکہ 4,000 سے زائد صارفین سے ان کے چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ طرزِ عمل پر سوالات کیے گئے۔ دوسرے مرحلے میں، ایم آئی ٹی میڈیا لیب نے 1,000 افراد کو ایک چار ہفتے کے تجربے میں شامل کیا، جس میں شرکاء کو روزانہ کم از کم پانچ منٹ تک چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ گفتگو کرنے کو کہا گیا۔
تحقیق کے مطابق، اگرچہ تنہائی اور سماجی تنہائی کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، لیکن وہ شرکاء جو چیٹ جی پی ٹی پر زیادہ بھروسہ کرتے اور ”جذباتی طور پر جُڑتے“ نظر آئے، ان میں دوسروں کی نسبت تنہائی کے زیادہ آثار پائے گئے۔
مطالعہ میں بتایا گیا، ’یومیہ زیادہ استعمال، خواہ کسی بھی انداز یا گفتگو کی نوعیت میں ہو، زیادہ تنہائی، انحصار اور غیر معمولی استعمال سے جُڑا ہوا تھا، جبکہ سماجی میل جول میں کمی دیکھی گئی۔‘
تحقیق میں چیٹ جی پی ٹی کے ”ایڈوانسڈ وائس موڈ“ یعنی آواز کے ذریعے بات چیت کے فیچر پر بھی گہری نظر ڈالی گئی۔ اس تجربے میں بوٹ کو دو مختلف انداز میں پروگرام کیا گیا:
نتائج سے معلوم ہوا کہ ابتدائی طور پر وائس چیٹ بوٹس، ٹیکسٹ چیٹ بوٹس کی نسبت، تنہائی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوئے۔ لیکن جیسے جیسے ان کا استعمال زیادہ ہوا، خاص طور پر نیوٹرل موڈ میں، ان کے فوائد کم ہوتے گئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ تحقیق ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن یہ گفتگو کا آغاز کرنے میں مدد دے سکتی ہے کہ اے آئی ٹیکنالوجی صارفین کی ذہنی صحت پر کیا اثر ڈال سکتی ہے۔
تحقیق میں شامل اوپن اے آئی کے سیفٹی ریسرچر جیسن فانگ کا کہنا تھا، ’ہم ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں، لیکن ہمارا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ ہم کن اثرات کو ماپ سکتے ہیں اور مستقبل میں ان کے طویل مدتی اثرات کیا ہوں گے۔‘
یہ تحقیق اس وقت سامنے آئی ہے جب اوپن اے آئی نے GPT-4.5 ماڈل متعارف کرایا ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ اپنے پیشرو اور حریف ماڈلز کے مقابلے میں زیادہ ذہین اور جذباتی طور پر حساس ہے۔