سینما، فلم اور آرٹ یہ وہ الفاظ تھے جنکا عملی طور پر ہونا میرے نزدیک معاشرے سے انتہا پسندی سمیت تمام منفی رجحانات کے خاتمے کا سبب بنتا ہےلیکن جس معاشرے سے آرٹ اور اس سے جڑے شعبے چھین لئے جائیں وہاں زندگی کی خوبصورتیوں کا فقدان ہو جاتا ہے۔
صبح دفتر آئی تو کئی اہم خبروں میں ایک خبر یہ بھی تھی کہ پشاور کے تاریخی اور لگ بھگ 80 سال سے بھی قدیم “ ناز سینما“ کو منہدم کر دیا گیا۔
اس لئے ناز سینما کا گرائے جانا کئی لوگوں کے لئے ایک خبر تھی لیکن میرے اور میرے جیسے لاکھوں آرٹ کے دیوانوں کے لئے خوبصورتیوں کا چھن جانا تھا۔ جب چین نہ آیا تو کیمرہ مین کو ساتھ لئے ناز سینما کے مقام پرجا پہنچی۔ آنکھوں کے سامنے اینٹوں، پتھروں اور ملبے کا ڈھیر پڑا تھا۔ لیکن میرے کانوں میں بیٹے کی آوز گونج رہی تھی۔
مما، FAST AND FURIOUS کی نئی فلم ریلز ہوئی پیپرز ختم ہوں تو دیکھنے اسلام آباد چلیں گےٓ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جب بھی ہماری پسند کی اچھی فلم ریلز ہوئی تو ہمیں اسے دیکھنے کے لئے اسلام آباد کا سفر کرنا پڑا ۔
ناز سینما کے ملبے پر کھڑی میں اس گفتگو کو آج بھی یاد کر رہی تھی کہ جب ہم ایک دوسرے سے یہ ڈسک کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کرتے کہ پختونخوا کےصوبائی دارلحکومت میں کوئی ایسا سینما نہیں کہ جہاں اس معیار کی فلم لگائی یا دیکھی جا سکے۔
لیکن جو سینما تھے بھی تو اب وہ بھی آہستہ آہستہ ملبے میں ڈھلتے اور پھر کمرشل پلازوں یا مارکیٹ کی شکل میں سامنے آرہے تھے۔ آج جس عمارت کا ملبہ میرے سامنے تھا کل شاید یہاں بھی کوئی پلازہ کھڑا ہو گا۔
لیکن فلم کا کیا ہو گا ۔ یہ وہ سوال تھا جسے میں نے رکھا ناز سینما کے مالک اور اس سینما کو چلانے والی تیسری نسل کے نمائندے جواد رضا کے سامنے۔
سینما کیوں توڑ دیا جناب۔
میرے اس سوال پر وہ بھی دکھی دکھائے دئیے لیکن ان کے پاس ایک دلیل تھی کہ جب فلم ہی نہیں بن رہی تو پھر سینما کا کیا کرنا ۔بجلی مہنگی ہو گئی، ہر ایک چیز کی کاسٹ دوگنی سے تگنی ہوگئی ۔اچھی اور معیاری پرڈکشن ہو نہیں رہی ہے۔ انڈین فلمز پر پابندی لگا دی گئی تو فلم بین نے بھی آنا چھوڑ دیا۔ اب دس، بارہ لوگوں کے لئے تو فلم نہیں لگا سکتے۔
جواد رضا نے پرانے وقتوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ “ 1976 میں جب پشتو فلم ”اوور بل “ ناز سینما پر سب سے پہلے ریلز ہوئی تو ڈیڑھ سے دو سال تک چلتی رہی۔ فلم بین اسے بار بار دیکھنا چاہتے تھے“۔
انھوں نے بتایا کہ پشاور کے 15 سینما گھروں میں اردو، پشتو، پنجابی اور انگریزی ہر قسم کی فلم چلتی تھیں لیکن پھر فلموں کے گرتے معیار نے فلم بین کو فلم سے دور کر دیا۔
انھوں نے بتایا کہ ”ہم نے ناز سنیما کو کچھ سال قبل اپ گریڈ بھی کیا اور اسے صوبے کے پہلے 3D سینی پلیکس میں بھی تبدیل کیا تاکہ فلم بینوں کو اچھی اور معیاری تفریح دی جا سکے لیکن فلم ہی نہیں تو پھر کیا جائے“۔
جواد رضا نے کہا کہ 52 ہفتوں میں 52 فلمیں چاہیے ہوتی ہیں لیکن یہاں تو عید کے عید ہی فلم آ پاتی ہے اور اب تو وہ بھی ایسی کے عید کے تین روز بڑی مشکل سے نکلتے ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ خا ص طور پر پشتو فلم انڈسٹری کا زوال ہمارے سینما کے لئے موت ثابت ہوا ہے۔ دو سال سے پشتو فلم نقصان پر چل رہی ہے ۔کیونکہ ایک اچھی فلم کے لئے جس سرمایہ کاری کی ضرورت ہے وہ مسیر نہیں ۔بدر منیر کے بعد آنے والے آرٹسٹ اور کہانی دونوں ایک جگہ رک سے گئے ہیں ۔نا کہانی بدل رہی ہے نہ ہی نئے آرٹسٹ آ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ناقص کہانی، فرسودہ سینماٹوگرافی، پشتو ثقافت کی غلط پیش کش نے فلم بین کو مایوس کر دیا ہے۔
ناز سینما کی تاریخی حیثت
ناز سینما کے مالک جواد رضا کے دادا پشاور کی کاروباری شخصیت تھے 1947 میں قیام پاکستان کے بعد جب یہاں سے لوگ ہجرت کر کے بھارت جانے لگے تو ان میں ”روز سینما“ کا مالک بھی شامل تھا ۔سکھ برادری سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت نے 1925 میں سینما کا لائسنس لیا لیکن سینما 40 کی دہائی میں شروع ہوا ۔اُس وقت اس سینما کا نام ”روز سینما“ تھا لیکن جواد رضا کے دادا نے خریدنے کے بعد تھیٹر کا نام بدل کر ’ناز سنیما‘ رکھ دیا گیا۔
پشاور کی سینما انڈسٹری پر عسکریت پسندی کے اثرات۔
ایک دہائی سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی عسکریت پسندی کی لہرکے دوران فروری 2014 میں یکے بعد دیگرے بم دھماکوں میں پشاور کے دو سینما گھروں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے اس سے قبل پی ایف سینما کو سیکورٹی وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا تھا۔
فلک سیر سنیما جون 2006 میں بند کر دیا گیا اور بعد میں ایک شاپنگ پلازہ میں تبدیل ہو گیا۔ سول عدالت نے سینما کی عمارت کو گرانے پر روک لگانے کا حکم بھی دیا لیکن جب تک عدالت نے حکم جاری کیا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور عمارت ختم ہوچکی تھی۔
اب تک پشاور میں فردوس (شبستان)، پلوشہ، ناولٹی، میٹرو، عشرت، سبرینا، اور کیپٹل سینما جیسے کئی پرانے سینما گھر منہدم کئے جا چکے ہیں۔ اگراور آل بات کریں تو کبھی سینما گھروں اور فنکاروں کا شہر کہلائے جانے والے پشاور میں اب کئی دہائیوں پرانے سینما گھر تجارتی اور کمرشل پلازوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
شہر کے 15 سنیما گھروں میں سے اب صرف 5 باقی رہ گئے ہیں لیکن اُنکی موجودہ حالت کی وجہ سے لگتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت بند کئے جا سکتے ہیں اور پھر وہاں بھی ہمیں کئی منزلہ عمارت نظر آئے گی۔