ہماری زمین پر ایک سال 365 دن کا ہوتا ہے، لیکن کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک ایسا سیارہ بھی موجود ہے جہاں پورا سال محض 30 گھنٹوں میں مکمل ہو جاتا ہے؟ یہ کسی سائنس فکشن کہانی کا حصہ معلوم ہوتا ہے، مگر درحقیقت یہ ایک سائنسی حقیقت ہے۔
یہ غیرمعمولی سیارہ ”ڈبلیو اے ایس پی 121b“ کہلاتا ہے اور زمین سے تقریباً 900 نوری سال کے فاصلے پر، کہکشانی جھرمٹ میں واقع ہے۔ اسے ’الٹرا ہاٹ جیوپیٹر‘ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک بہت بڑا گیس کا گولا ہے جو اپنے میزبان ستارے کے انتہائی قریب گردش کر رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں، وہاں کا سال محض 30 گھنٹوں میں مکمل ہو جاتا ہے۔
کیمیائی طوفانوں کی دنیا
نہایت جدید ٹیلی اسکوپس، جیسے کہ ”یورپی سدرن آبزرویٹری“ کے ”ویری لارج ٹیلی اسکوپ“ کے ذریعے کیے گئے مشاہدات سے معلوم ہوا کہ ’ڈبلیو اے ایس پی 121b‘ کی فضا میں انتہائی تیز ہوائیں چلتی ہیں جو آئرن (لوہا) اور ٹائٹینیم جیسے عناصر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہیں۔ یہ نہ صرف ہمارے موسمی نظام کو چیلنج کرتا ہے بلکہ سیارے کی فضا کی ایک تین جہتی یا تھری ڈی تصویر بھی پیش کرتا ہے۔
سائنسدانوں نے کائنات میں سب سے تیز ہواؤں والا ’سیارہ‘ دریافت کرلیا
موسم جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ یہ سیارہ ہمیشہ اپنے ستارے کی طرف رخ رکھتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا ایک پہلو شدید گرم جبکہ دوسرا پہلو نسبتاً ٹھنڈا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں دو مختلف قسم کے ہوائی دھارے موجود ہیں۔
پہلا خطِ استوا کے گرد گھومتی تیز ہوائیں جو مواد کو سیارے کے اردگرد چکر دیتی ہیں، دوسرے زیریں فضا میں ایک الگ ہوا کا بہاؤ جو گرم حصے سے گیس کو ٹھنڈے حصے کی طرف لے جاتا ہے۔
یہ دوہرے ہوائی نظام کا انکشاف پہلے کسی بھی سیارے پر نہیں کیا گیا تھا، جو کہ سائنسدانوں کے لیے انتہائی حیران کن دریافت ہے۔
کہکشانی تحقیق میں ایک نیا باب
ماہر فلکیات نے ’ڈبلیو اے ایس پی 121b‘ کی فضا میں آئرن، سوڈیم اور ہائیڈروجن جیسے عناصر کا مشاہدہ کیا، جس کی مدد سے مختلف بلندیوں پر چلنے والی ہواؤں کا سراغ لگایا گیا۔ اس کے علاوہ، ایک تحقیق میں ٹائٹینیم کی موجودگی بھی دریافت ہوئی، جو اس کی فضا میں ایک اور دلچسپ پہلو کو ظاہر کرتی ہے۔
سیارہ زحل کے چاند میں سمندر دریافت
یونیورسٹی آف لُنڈ، سویڈن سے وابستہ محقق بیبیانا پرینوتھ کہتی ہیں، ’یہ ناقابل یقین ہے کہ ہم ایک اتنے دور دراز سیارے کی کیمیائی ترکیب اور موسم کے بارے میں اتنی تفصیلات جان سکتے ہیں۔‘
کیا مستقبل میں ہم وہاں جا سکیں گے؟
فی الحال، ’ڈبلیو اے ایس پی 121b‘ پر زندگی ممکن نہیں کیونکہ یہ انتہائی گرم گیسوں سے بنا ہوا ہے۔ تاہم، اس تحقیق نے یہ ثابت کر دیا کہ ہم نہ صرف دور دراز کہکشاؤں میں موجود سیاروں کا مطالعہ کر سکتے ہیں بلکہ ان کے موسموں اور ماحول کی تفصیلات بھی جان سکتے ہیں۔ مستقبل میں، یہ تحقیق ہمیں زمین جیسے دوسرے سیاروں کی کھوج میں مدد دے سکتی ہے۔
یہ دریافت ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات حیرتوں سے بھری ہوئی ہے اور ہر نیا انکشاف ہمیں ایک نئے جہان کی جھلک دکھاتا ہے۔