Aaj Logo

اپ ڈیٹ 16 جنوری 2025 05:18pm

وزیراعظم نے اپوزیشن کے تحریری مطالبات کا جواب دینے کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی

وزیراعظم کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ شہباز شریف نے اپوزیشن کے تحریری مطالبات کا جواب دینے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی جبکہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن نے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے اور وہ مینڈیٹ واپسی کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی ہے۔

اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے رکن رانا ثنااللہ نے سینیٹر عرفان صدیقی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ آج ملاقات میں اپوزیشن نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے تحریری مطالبات کا جواب دینے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی، حکومتی کمیٹی پی ٹی آئی کے مطالبات کا جائزہ لے کرجواب دے گی، کمیٹی میں تمام اتحادی اور پیپلزپارٹی کے اراکین بھی شامل ہیں، حکومتی کمیٹی مطالبات پر جو جواب دے گی وہ حتمی ہوگا۔

وزیراعظم کے مشیر نے مزید کہا کہ اپوزیشن کے 2 بنیادی مطالبات ہیں جن کا وہ پچھلے 10، 11 ماہ سے ذکر کرتے آرہے ہیں، ایک تو یہ کہ ہمارا مینڈیٹ واپس کیا جائے جس پر ہم انہیں کہتے ہیں کہ اس کے لیے قانونی طریقہ کار اختیار کیا جائے، آج اس سے وہ دستبردار ہوگئے ہیں اور آج کی ملاقات میں انہوں نے الیکشن کے حوالے سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔

حکومت پی ٹی آئی مذاکرات کا تحریری اعلامیہ جاری، تحریری مطالبات پیش، حکومتی جواب کا وقت مقرر

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ تمام مقدمات سیاسی طور پر بنائے گئے ہیں جس پر ہم نے انہیں کہا تھا کہ آپ ہمیں ایف آئی آر کے نمبرز فراہم کریں کہ کن سیاسی ورکز کے خلاف ایسے مقدمات بنائے گئے ہیں لیکن انہوں نے اس حوالے سے کسی قسم کی تفصیلات فراہم نہیں کی۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اپوزیشن نے اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ میں کہا ’وفاقی حکومت 2 کمیشن قائم کرے اور ان کمیشن کی سربراہی یا چیف جسٹس آف پاکستان کریں یا پھر سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں کسی کو سربراہی دی جائے، یہ کمیشن انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت بنائے جائیں۔

سابق وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ تحریری مطالبات میں 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کی بات کی گئی تو یہ معاملہ تو پہلے سے سپریم کورٹ میں ہے اور اس پر پہلے سے ہی جوڈیشل ریویو ہوچکا ہے تو اس میں دوبارہ چیف جسٹس کس چیز کی انکوائری کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح اسلام آباد ہائیکورٹ کی حدود میں رینجرز کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کی قانونی حیثیت اور ذمہ داران کے خلاف تحقیقات کا کہا گیا، یہ معاملے پر بھی پہلے ہی جوڈیشل ایکشن ہوچکا ہے، اس پر تو اسی وقت ہی اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس لے لیا تھا۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ کمیشن 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے وقت کے حالات کی تحقیقات کرے کہ کن حالات میں گروہوں یا افراد کو اعلیٰ سیکیورٹی مقامات تک رسائی ملی، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام کیسز انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چل رہے ہیں جب کہ کچھ کے ملٹری کورٹس میں فیصلے ہوچکے ہیں۔

مشیر وزیراعظم نے مزید کہا کہ یہ تمام کیسز تو پہلے ہی عدالتوں میں ہیں تو اب ان کا نئے سرے سے کمیشن بنانے کا تو مینڈیٹ بھی نہیں ہے کہ کیسز عدالتوں میں کسی بھی سطح پر چل رہے ہوں تو اس میں کمیشن کیا کرسکتا ہے۔

پی ٹی آئی کا آرمی چیف سے رابطہ، سارا معاملہ سامنے رکھ دیا، بیرسٹر گوہر

ایگزیکٹو آرڈر سے معاملات حل ہو نہیں سکتے، عمر ایوب

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ کمیشن یہ بھی دیکھے کہ لوگوں کو کس حالات میں گرفتار کیا گیا، اس پر جتنے بھی کیسز چل رہے ہیں وہاں سب کچھ بتایا گیا ہے کہ کون کہاں سے اور کیسے حراست میں لیا گیا۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے مطالبات پروپیگنڈے کے علاوہ کچھ نہیں، پی ٹی آئی نے چارٹر آف ڈیمانڈ جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں ان مطالبات کا تو کوئی جواب نہیں بنتا، پی ٹی آئی نے مطالبات کے ساتھ کسی قسم کی تفصیلات اور ڈیٹا فراہم نہیں کیا لہذا اس پر 2017 کے ایکٹ کے تحت جوڈیشل کمیشن کا قیام کا جواز نہیں بنتا۔

Read Comments