حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور آج ہوا، جس میں تحریک انصاف نے اپنے تحریری مطالبات حکومت کو پیش کردئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے مجموعی طور پر حکومت کے سامنے بنیادی مطالبات سے جڑے 22 مطالبات رکھے، جن میں دو انکوائری کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے پانچ مطالبات رکھے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اپوزیشن نے اپنے تحریری مطالبات حکومتی کمیٹی کے سامنے رکھے، جس میں پی ٹی آئی نے عمران خان کی رہائی اور وفاقی حکومت سے دو کمیشن آف انکوائریز تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔
ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے حکومت سے مذکرات کیلئے مطالبات کا تین صفحات پر مشتمل ڈرافٹ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے لیٹر پیڈ پر تیار کیا ہے، مذاکرات سے قبل اپوزیشن لیڈر چیمبر میں اپوزیشن مذاکراتی کمیٹی کے اراکین سے اس ڈرافٹ پر دستخط کرائے گئے۔
مذاکرات کے اس تیسرے دور میں حکومت کے دس اور اپوزیشن کے چھ رہنماؤں نے شرکت کی۔
حکومتی اراکین میں سینیٹر عرفان صدیقی، رانا ثنا اللہ خان، خالد حسین مگسی، اعجازالحق، فاروق ستار، علیم خان، سالک حسین، سید نوید قمر اور راجہ پرویز اشرف شامل ہیں۔
جبکہ اپوزیشن کی جانب سے عمر ایوب، اسد قیصر، راجہ ناصرعباس، علی امین گنڈاپور، صاحبزادہ حامد رضا، بیرسٹر علی ظفر اور سلمان اکرم راجہ نے شرکت کی۔
اجلاس کے دوران اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ اگرکسی کو میری چیئرمین شپ پر اعتراض ہے تو بتادیں، اپوزیشن اور حکومتی کمیٹی کی یہ تیسری نشست ہے، مذاکرات کے حوالے سے کچھ غلط فہمیاں ہوئیں، بات چیت میں کچھ تاخیر ہوگئی، یہ بھی تاثر دیا گیا کہ میں کوئی کردار ادا نہیں کررہا ہے، امید ہے آج کا اجلاس مذاکرات میں پیش رفت کا باعث بنے گا۔
پی ٹی آئی نے اپنے ڈرافٹ میں مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے، سپریم کورٹ کے تین ججز کو کمیشن کا حصہ بنایا جائے۔ پی ٹی آئی نے مطالبہ کیا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کی مشاورت سے سات روز میں کمیشن تشکیل دیا جائے۔
مطالبہ کیا گیا کہ پہلا کمیشن مو مئی واقعات اور بانی کی گرفتاری کی قانونی حیثیت کی تحقیقات کرے، جبکہ دوسرا کمیشن 24 سے 27 نومبر تک کے واقعات کی تحقیقات کرے۔
تحریری مطالبے میں کہا گیا ہے کہ کمیشن بانی پی ٹی آئی کی 9 مئی سے متعلق گرفتاری کی انکوائری کرے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں رینجرز اور پولیس کے داخل ہونے کی انکوائری کی جائے، بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری کے بعد 9 مئی واقعات کی سی سی ٹی وی ویڈیو کی تحقیقات کی جائے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد میں مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا گیا، ساتھ ہی مطالبہ کیا گیا کہ 24 سے 27 نومبر تک زخمی اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد بھی بتائی جائے۔ کمیشن اسلام آباد میں مظاہرین پر فائرنگ اور طاقت کے استعمال کا حکم دینے والوں کی شناخت کرے، کمیشن شہداء اور زخمیوں کی تعداد پر اسپتالوں اور میڈیکل سہولیات کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگ کی جانچ کرے۔
تحریک انصاف نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام گرفتاریوں کا قانونی حیثیت اور انسانی حقوق کے حوالے سے جائزہ لیا جائے جبکہ ایک ہی فرد کے خلاف متعدد ایف آئی آرز کے اندراج کا جائزہ لیا جائے۔
تحریری مطالبے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت سمیت سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں تمام سیاسی قیدیوں کی ضمانت یا سزاوں کی معطلی کے احکامات جاری کریں، دونوں کمیشن کی کارروائی عوام اور میڈیا کے لیے کھلی ہونی چاہیے۔
چارٹر آف ڈیمانڈ میں کہا گیا ہے کہ سنسر شپ، رپورٹنگ پر پابندیوں اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کی تحقیقات کی جائے، کمشین انٹرنیٹ کی بندش اور اس ہونے والے نقصانات کے ذمہ داران کا بھی تعین کرے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں فریقین آج بھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں، اجلاس اب دو ہفتے بعد دوبارہ ہوگا۔
آج بھی ملاقات کافی خوشگوار ماحول میں ہوئی، ایاز صادق
مذاکراتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج تیسری میٹنگ ہوئی ہے، آج بھی ملاقات کافی خوشگوار ماحول میں ہوئی، عرفان صدیقی اعلامیہ پڑھ کر سنائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں سیز فائر ہوا ہے، یہاں سے بات کا آغاز ہوا، عمر ایوب نے چاٹر آف ڈیمانڈ پڑھ کر سنایا، اس پر راستہ نکالنے پر بات چیت ہوئی، اپوزیشن نے بانی چئیرمین سے ایک اور ملاقات کے لئے کہا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اس پر حکومت نے معاونت کرنے کا کہا ہے، میں نے دو ڈیمانڈز دونوں کمیٹیوں کو پیش کی تھی، ایک چاٹر آف اکانومی اور دوسرا دیشتگردی کے حوالے سے کمیٹی بنانے کا کہا ہے، اس پر آئندہ بات چیت ہو گی۔
اجلاس کے اختتام پر اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آج بھی حکومت اور اپوزیشن میں خوشگوار میٹنگ ہوئی، مشترکہ اعلامیہ عرفان صدیقی پڑھ کر سنائیں گے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ اپوزیشن لیڈر نے اپنی ڈیمانڈز پڑھ کر سنائیں، مطالبات پر تفصیل سے بات چیت ہوئی۔ دونوں اطراف نے راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ پی ٹی آئی نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کا مطالبہ کیا ہے، حکومتی کمیٹی نے عمران خان سے ملاقات کروانے کی کوشش کی یقین دہانی کرائی ہے۔ حکومتی کمیٹی اپوزیشن کے مذاکرات پر تحریری مؤقف 7 روز میں پیش کرے گی۔ مذاکرات ٹھیک سمت میں بڑھ رہے ہیں۔
دیکھنا ہے کہ حکومت کتنی سنجیدگی دکھاتی ہے، اسد قیصر
مذاکرات سے قبل پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے کہا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے آج مذاکرات ہوں گے، ہم آج اپنا تحریری مؤقف حکومت کو دیں گے، اب آگے حکومت کا ردعمل دیکھنا ہے کہ حکومت کتنی سنجیدگی دکھاتی ہے۔
اسد قیصر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہم نے حکومت کو مذاکرات کے نتائج نکالنے کا موقع دیا ہے، اب یہ دیکھنا ہے کہ حکومت ملک کو سیاسی بحران سے نکالنے کیلئے کیا کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فارم 47 کے حوالے سے ہمارا مؤقف وہی ہے، موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم مذاکرات کر رہے ہیں۔
حکومت نے معاملات درست نہ کیے تو یہ آخری بیٹھک ہے، بیرسٹر علی ظفر
پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر علی ظفر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے دوٹوک ہدایت دی ہیں، بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ اگر حکومت نہیں مانتی تو پھر آئندہ بیٹھک نہیں ہوگی، اگر آج ہمارے دو مطالبات نہ مانے گئے تو پھر دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج حکومت نے معاملے کو آگے بڑھایا تو مذاکرات آگے چلیں گے، اگر حکومت نے معاملات درست نہ کیے تو یہ آخری بیٹھک ہے۔
جوڈیشل کمیشن پر حکومت رضا مند نہیں ہوتی تو آئندہ سیشن نہیں ہوگا، صاحبزادہ حامد رضا
اپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ آج تمام مطالبات تحریری طور پر دے دیں گے، جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے تمام تحریری مطالبات حکومت کو دیں گے۔
صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن پر حکومت رضا مند نہیں ہوتی تو آئندہ سیشن نہیں ہوگا، کمیشن اور اسیران کی رہائی دو مطالبات ہیں۔
حکومت چاہے تو جوڈیشل کمیشن کل کرسکتی ہے، سلمان اکرم راجہ
پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کیلئے حکومت چاہے تو کل کرسکتی ہے،قانون کےمطابق ضمانت اور سزا معطلی حکومت کے اختیار میں ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم این آر او نہیں مانگ رہے، حق مانگ رہے ہیں۔
مطالبات پر 31 جنوری سے پہلے اپنا جواب دیں گے، سینیٹر عرفان صدیقی
دوسری جانب حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت پی ٹی آئی کے مطالبات پر 31 جنوری سے پہلے اپنا جواب دے دے گی، مذاکرات میں بھی کوئی معجزہ ہوسکتا ہے، باہر جہاں بھی مذاکرت ہو رہے ہوں ہوتے رہیں، ہمیں تو ہمارے ساتھ ہونے والے مذاکرات سے سروکار ہے۔