’اسرائیلی دباؤ نے حماس کو جنگ بندی معاہدے پر مجبور کیا، اور اسرائیل کو امریکا کی مکمل حمایت حاصل رہی، ہمارے دوست مضبوط اور دشمن کمزور ہوگئے‘، یہ ایک جملہ نہیں ہے بلکہ دنیا کے دو ارب کے قریب مسلمانوں کے لیے امریکی صدر کا طمانچہ ہے۔
اسرائیل پر سات اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیں تو صہیونی حملوں میں اب تک 47 ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کا اصل ہدف حماس نہیں فلسطینی بچے اور عورتیں ہیں۔
فسلطینی محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ حملوں میں 18 ہزار کے قریب بچے شہید ہوئے، ہزاروں خواتین مرتبۂ شہادت پر فائز ہوئیں، ہزاروں بچے ملبے تلے دب کر بھی جان گنوا بیٹھے ہیں جن کا کوئی شمار ہی نہیں کیا گیا، بھوک، پیاس اور موت بے گناہ فلسطینیوں پر مسلط کردی گئی۔
تازیانہ یہ ہے کہ مرنے والے 80 فیصد افراد اپنے گھروں میں تھے۔ حماس نے اسرائیل پر جو حملہ کیا تھا اس میں صرف 12 سو کے قریب اسرائیلی مارے گئے جبکہ 250 کو یرغمال بنایا گیا، یعنی 1500 کے جواب میں اب تک 47 ہزار فلسطینی شہید کردیے گئے، اور اسرائیل کو امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ملکوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
جنگ بندی معاہدے کے بعد بے گھر فلسطینیوں میں جشن کا سماں، امدادی سامان کی ترسیل شروع
برطانوی سائنسی جریدے لینسٹ میں لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کی تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا ہے کہ سات اکتوبر 2024 تک یعنی جنگ شروع ہونے کے ایک سال مکمل ہونے تک غزہ میں شہریوں کی اموات 70 ستر ہزار سے زیادہ تھی، جبکہ غزہ کے محکمہ صحت کے اس وقت کے اعداد و شمار میں 38 ہزار افراد شہید ہوئے تھے۔ ہیومین رائٹس واچ نے بھی گزشتہ ماہ اپنی رپورٹ میں کہا کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر صاف پانی تک فلسطینی عوام کی رسائی کو ناممکن بنایا۔
غزہ میں نسل کشی رکوانے کے لیے مسلم رہنماؤں کا عملی کردار خال خال ہی نظر آتا ہے، البتہ عام مسلمان اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑے رہے، سلام ہے دنیا بھر کے ان غیرمسلموں کو بھی جنھوں نے غزہ کے نہتے اور مظلوم عوام کے لیے آواز اٹھائی، دوسری طرف مسلم حکمراں صرف تقاریر میں فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے رہے، ورنہ دل تو ان کا امریکا اور اسرائیل کی مالا جپتا ہے، ایسے بھی مسلم ملک ہیں جو بظاہر اسرائیل کی مذمت کرتے ہیں لیکن اپنے ہاں سفارتخانے کھول کے بیٹھے ہیں یا کھولنے کی تیاری کر رہے ہیں، ان کی اسرائیل سے اربوں ڈالر کی تجارت ہے اور ان کے نزدیک ملکی مفاد زیادہ اہم ہے، ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے۔
امریکا، اسرائیل اور مغربی دنیا کے سرکردہ ملکوں نے حماس کی حمایت کو بہانہ بنا کر شام اور لبنان کو تاراج کردیا، اس سے پہلے عراق اور لیبیا کی تباہی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، مشرقِ وسطیٰ کے سارے کس بل نکالنے کی منصوبہ بندی کوئی آج کی بات نہیں ہے، کسی کو تجارت کا لالچ دے کر راضی کرلیا گیا تو کسی کو کچھ اور لیکن اگر کوئی نہ مانا تو اسے نشانِ عبرت بنا ڈالا گیا۔
معاہدے کی بات کریں تو حماس نے اسے اہم کامیابی قرار دیا اور کہا کہ معاہدہ فلسطینی عوام کی عظمت اور غزہ میں مزاحمت کے بے مثال جذبے کا غماز ہے، کامیابی جدوجہد کے سفر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، غزہ کے عوام صابر اور شجاعت سے بھرپور ہیں، حماس نے دنیا بھر کے ان تمام افراد کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے غزہ کے عوام سے اظہار یک جہتی کیا اور عالمی سطح پر اسرائیلی جارحیت کو بے نقاب کیا۔ مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے معاہدے پر ردعمل میں رب کریم کا شکر ادا کیا اور کہا اسرائیل اور اس کے حواریوں کی طرف سے کی گئی فلسطینیوں کی نسل کشی اور جنگی جرائم تاریخ انسانی میں ہمیشہ محفوظ رہیں گے، یہ جدید دور کی بھیانک نسل کشی ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔
انہوں نے اسرائیلی حملوں میں شہید تمام رہنماؤں کا نام لے لے کر ذکر کیا، اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ ان کے نقش پا ہی رہنما ہیں، فتح پائیں گے یا شہادت کی دولت سے سرفراز ہوں گے۔
نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ نے معاہدے کو اپنی تاریخی فتح کا نتیجہ قرار دیا، نئی امریکی انتظامیہ کیسی اور اس کی پالیسی کیا ہوگی، ذرا امریکی سینیٹ میں نامزد وزیر دفاع کے لیے توثیقی اجلاس کی روداد پر نظر ڈال لیں، پیٹ ہیگسیتھ کو ٹرمپ نے نامزد کیا ہے، یہ وہ صاحب ہیں جنھوں نے تمام مسلمانوں کو قتل کرنے کا بیان دیا، اخلاقی پستی کا شاہکار اور انتہائی متعصب انسان ہیں، امریکی سینیٹ نے تو انھیں عہدے کے لیے نااہل اور ناموزوں قرار دے دیا ہے۔ پیٹ کی نامزدگی مسلمانوں کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسی کا پتا دیتی ہے۔ جارج بش کی جانب سے کروسیڈ (صلیبی جنگ) کے لفظ کا استعمال ہو یا ٹرمپ کی جانب سے کی جانے والی نامزدگیاں، سب ہی ایک ہی تھیلے سے نکل رہی ہیں اور وہ تھیلا مسلم دشمنی سے لبالب بھرا ہوا ہے۔
کچھ مسلم رہنما اور ممالک مطمئن ہیں کہ وہ تو کسی تنازع کا حصہ نہیں ہیں، نہ کسی کے حمایتی اور نہ مخالف، جو ہوتا ہے ہوتا رہے ان کی بلا سے، بس ان کا اقتدار اور سلامتی برقرار رہے لیکن امریکی صدر کے طمانچے کی گونج جلد ختم ہوتی نظر نہیں آرہی کیونکہ صدیوں پہلے صلیبی جنگوں میں ہونے والی شکست کا بدلہ ابھی تک پوری طرح نہیں لیا جاسکا ہے، بس تھیلے میں ہاتھ جانے اور باہر آنے دیں پھر نیا تماشا لگے گا، ظالم وہی لیکن مظلوم نیا ہوگا۔